امریکہ اور سعودیہ پر تنقید، تہران ، اصفہان اور دیگر مقامات پر مظاہرے ، مہلوکین کی تعداد 22 ہوگئی، 450 گرفتار
تہران 2 جنوری (سیاست ڈاٹ کام) ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای نے اپنے ملک کی کئی دہائیوں قدیم اسلامی حکومت کو درپیش سب سے بڑے امتحان سمجھے جانے والے عوامی احتجاج کے لئے ملک کے دشمنوں کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔ ایران میں گزشتہ چند دن سے جاری احتجاج میں تاحال 22سے زائد افراد ہلاک اور دیگر سینکڑوں گرفتار ہوچکے ہیں۔ آیت اللہ علی خامنہ ای نے سرکاری ٹیلی ویژن پر نشر کردہ اپنے خطاب میں کہاکہ ’’اسلامی جمہوریہ میں مسائل پیدا کرنے کے لئے تمام دشمنان متحد ہوچکے ہیں اور وہ دولت، اسلحہ، پالیسیز اور سکیورٹی خدمات جیسے تمام ذرائع استعمال کررہے ہیں‘‘۔ ایرانی عہدیداروں نے کہا ہے کہ احتجاج کو مزید بھڑکانے کے لئے امریکہ، برطانیہ اور سعودی عرب میں آن لائن اکاؤنٹس قائم کئے گئے ہیں۔ سرکاری ٹیلی ویژن نے آج کہاکہ پرتشدد احتجاج کے پانچویں شب وسطی صوبہ اصفہان کے ایک پولیس اسٹیشن پر حملے میں کم سے کم 6 احتجاجی ہلاک ہوگئے۔ اصفہان کے ثقافتی مرکز کے اطراف واقع کم سے کم دیگر 3 قصبوں میں بھی کل رات پرتشدد مظاہرے ہوئے جس میں پاسداران انقلاب کا ایک رکن، ایک پولیس ملازم اور ایک راہگیر ہلاک ہوگیا۔ خامنہ ای نے کہاکہ ’’ایرانی قوم اور ملک میں دراندازی اور اس پر کاری ضرب لگانے کے لئے دشمن ہمیشہ کسی موقع کا منتظر رہتا ہے‘‘۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایران کے متعدد شہروں میں جاری عوامی احتجاج و بے چینی کسی قائد کی رہنمائی کے بغیر جاری ہے اور کل شام دارالحکومت تہران میں بھی احتجاج کے دوران تشدد کے چند واقعات پیش آئے۔ ایران کے مختلف شہروں میں ہونے والے مظاہرے 2009 کے عام انتخابات کے بعد سب سے وسیع پیمانے پر ہونے والی عوامی تحریک ہے ، جس کی شروعات گزشتہ جمعرات کو مشہد شہر سے ہوئی تھی۔
یہ احتجاج ابتدا میں ملک میں مہنگائی بڑھنے اور بدعنوانی کے خلاف شروع ہوا تھا، لیکن رفتہ رفتہ اس کا دائرہ وسیع پیمانے پر حکومت مخالف عوامی مظاہرے کی صورت میں بڑھتا گیا اور یہ مظاہرے میں اب ایران کے متعدد شہروں میں شروع ہوگئے ہیں۔ مظاہرے کے دوران اب تک سیکڑوں لوگوں کو گرفتار کیا جاچکا ہے ۔ دریں اثناء، ایرانی صدر حسن روحانی نے قانون کی خلاف ورزی کرنے والو ں سے سختی سے نمٹنے کی دھمکی دی ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ مظاہرین کی مدد کررہا ہے ۔ پاسداران انقلاب کے ایک ترجمان نے کہاکہ اُن سے راست طور پر مداخلت کی کوئی درخواست نہیں کی گئی ہے تاہم وہ عوام سے درخواست کرتے ہیں کہ فسادی عناصر کے بارے میں اطلاعات پہنچائیں۔ پاسداران کی مقامی شاخ کے ایک ڈپٹی کمانڈر اسمٰعیل کوثری نے کہاکہ ’’ہم تہران میں عدم تحفظ جاری رکھنے کی اجازت نہیں دے سکتے اور اگر عدم تحفظ اور سلامتی کی فضاء جاری رہتی ہے تو عہدیدار اِس کے خاتمہ کیلئے سخت فیصلے کریں گے‘‘۔ اعلیٰ قومی سلامتی کونسل کے سکریٹری علی شمقانی نے اپنے ملک میں جاری عوامی احتجاج و بے چینی کو ایرانی عوام کے خلاف ایک بالواسطہ لڑائی قرار دیا۔ انھوں نے کہاکہ ایران کی صورتحال کے بارے میں امریکہ، برطانیہ اور سعودی عرب سے آن لائن پیغامات جاری کئے جارہے ہیں۔ ملک کی ابتر معاشی صورتحال کے خلاف جمعرات کو شروع ہونے والے عوامی احتجاج کو ختم کرنے کی کوشش کے طور پر صدر حسن روحانی نے عوام سے پرسکون رہنے کی اپیل کے ساتھ یہ اعتراف کیا تھا کہ عوام کو اظہار ناراضگی کا حق حاصل ہے لیکن تشدد کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ روحانی کی اِس اپیل کے برخلاف یہ احتجاج اچانک حکومت کے خلاف خطرناک موڑ اختیار کرگیا اور احتجاجیوں نے بہ یک آواز ہوکر ’ڈکٹیٹر مردہ باد‘ کے نعروں کی گونج میں مظاہروں کا آغاز کردیا۔