روس ترکی کا دوست اور پڑوسی ملک : دعوت اوگلو

وزیراعظم کا پارٹی ارکان سے خطاب ، صدر ترکی سے صدر امریکہ کی گفتگو، کشیدگی کم کرنے کی خواہش
انقرہ ؍ ماسکو ۔ 25 نومبر (سیاست ڈاٹ کام) وزیراعظم ترکی احمد دعوت اوگلو نے آج کہا کہ ان کی حکومت اپنے دوست روس کے ساتھ کشیدگی پیدا کرنا نہیں چاہتی۔ ایک دن قبل ترکی نے روس کا جنگی طیارہ شام کی سرحد پر مار گرایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا روس کے ساتھ کشیدہ تعلقات کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ وہ پارلیمنٹ میں برسراقتدار پارٹی کے ارکان سے خطاب کررہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ روس ہمارا دوست اور پڑوسی ہے۔ ترکی کے ایف 16 جیٹ طیاروں نے روسی طیارہ کو اپنے قوانین کے تحت شام کی سرحد پر مار گرایا تھا جس پر وزیراعظم اور صدر روس ولادیمیر پوٹن نے برہمی کے عالم میں ترکی کو انتباہ دیا تھا کہ اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ روس کے وزیرخارجہ سرگئی لاوروف نے اپنا دورہ ترکی منسوخ کردیا تھا جبکہ پوٹن نے روسی شہریوں کو ترکی کا دورہ نہ کرنے کی ہدایت دی تھی۔ دعوت اوگلو نے کہا کہ روسی طیارہ نے ترکی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی تھی جسے ملک کیلئے خطرہ سمجھا گیا اور اپنے بڑے تجارتی شراکت دار روس کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی پیدا نہ کرنے کی خواہش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارے انتہائی مستحکم معاشی، تجارتی اور ثقافتی تعلقات روس کے ساتھ ہیں لیکن انہوں نے انتباہ دیا کہ یہ ترکی کا فطری حق ہے کہ اپنے سرحدات اور قومی سلامتی کی حفاظت کرے۔ ترکی کی نظر کسی بھی ملک کی سرزمین پر نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم روس یا کسی اور ملک پر حملہ نہیں کریں گے۔ یہ خارج از امکان ہے۔ دریں اثناء صدر امریکہ بارک اوباما نے صدر ترکی رجیب طیب اردغان کو ٹیلیفون پر خواہش کی کہ وہ روس کے ساتھ کشیدگی میں کمی کرے۔ انہوں نے اس واقعہ کے بعد ناٹو کے حلیف ملک کی حیثیت سے ترکی کی زبردست تائید کی تھی۔ انہوں نے روس ۔ ترکی کشیدگی کم کرنے کی ضرورت سے اتفاق کیا۔

قبل ازیں دن میں صدر امریکہ اور صدر روس نے مشترکہ طور پر دونوں ملکوں پر زور دیا تھا کہ وہ بات چیت کے ذریعہ اختلافات ختم کرلیں۔ ماسکو سے موصولہ اطلاع کے بموجب روس نے ترکی پر الزام عائد کیا کہ اس کے جنگی طیارہ کو شام کی سرحد پر مار گرانا اس کی ’’منصوبہ بند اشتعال انگیزی‘‘ تھی جبکہ زندہ بچ جانے والے پائلٹ نے دعویٰ کیا ہیکہ روسی طیارہ کو ترکی کی جانب سے کوئی انتباہ نہیں دیا گیا تھا۔ ماسکو نے کہا کہ روس اور شام کی خصوصی فوج نے بمبار طیارہ سے باہر چھلانگ لگانے والے دو پائلٹوں میں سے ایک کو زندہ بچا لیا ہے۔ اپنے پہلے انٹرویو میں پائلٹ کانسٹنٹین مراقٹین نے روس کے سرکاری ذرائع ابلاغ سے کہا کہ ترکی لڑاکا طیاروں کے روسی طیارہ پر حملہ سے پہلے کوئی انتباہ نہیں دیا گیا۔ ترکی کا اصرار ہیکہ پانچ منٹ میں اس کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے پر 10 بار انتباہ دیا گیا تھا۔ طیارہ کو مار گرانے سے شام کی جنگ میں دونوں حریف ممالک کے درمیان سخت کشیدگی پیدا ہوگئی تھی اور خوف تھا کہ کشیدگی میں مزید اضافہ ہوکر یہ وسیع تر جغرافی ۔ سیاسی جنگ میں تبدیل ہوجائے گی۔ صدر روس ولادیمیر پوٹن نے کل اس واقعہ کو پیٹھ میں خنجر گھونپنے کے مترادف قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایسی حرکت صرف دہشت گردوںکے حلیف ہی کرسکتے ہیں اور روسی شہریوں کو مشورہ دیا تھا کہ وہ ترکی کا سفر نہ کریں۔ صدر رجب طیب اردغان نے پرزور انداز میں کہا کہ ترکی ہر قیمت پر اپنی سرحدوں اور قومی سلامتی کا دفاع کرے گا۔ وزیراعظم احمد دعوت اوگلو نے روس کو اپنا دوست اور پڑوسی قرار دیا اور کہا کہ ترکی روس سے تعلقات میں کشیدگی پیدا کرنا نہیں چاہتا۔ تاہم روسی طیارہ نے ترکی فضائی حدود کی کئی بار خلاف ورزی کی تھی اور اسے 10 بار ترکی نے انتباہ دیا تھا۔ ترکی ذرائع ابلاغ نے ان کا یہ بیان نشر کیا تھا لیکن ترکی کے بیان کی آزادانہ ذرائع سے توثیق نہیں ہوسکی۔ ترکی فضائیہ کو چوکسی کی ہدایت دے دی گئی لیکن روس نے پرزور انداز میں کہا کہ اس کا طیارہ صرف شام کی فضائی حدود میں طلایہ گردی کررہا تھا۔ طیارہ کو مار گرانے سے امکان ہیکہ شام میں جاری امن کی کوشش ناکام ہوجائے حالانکہ 13 نومبر کو پیرس پر دولت اسلامیہ کے دہشت گرد حملہ کے بعد امن کارروائی میں تیز رفتاری پیدا ہوگئی تھی۔ صدر فرانس فرینکوئی اولاند کل ماسکو کا دورہ کریںگے اور صدر روس پوٹن سے ملاقات کریں گے۔ دونوں ممالک دولت اسلامیہ کے خلاف جنگ کیلئے عظیم تر اتحاد قائم کرنا چاہتے ہیں۔