تحفظات کی پالیسیوں کو نذر انداز کرنے والے ایم اے یو کو کیوں دئے جائیں فنڈس؟ این سی ایس سی کا ایچ آر ڈی سے سوال

نئی دہلی۔قومی کمیشن برائے درج فہرست طبقات( این سی ایس سی)کی ہدایت کے مطابق دیگر یونیورسٹیوں کیے طر ز پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی تحفظات کی پالیسی کو نہیں اپناتی ہے

۔نیو انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق این سی ایس سی نے ایک لیٹر لکھ کر آیچ آر ڈی منسٹری سے سوال کیاہے کہ اگر یہ یونیورسٹی تحفظات کی پالیسی پر عمل پیرا نہیں ہے تو اس حکومت اس ادارے کو فنڈس کیوں جاری کرتی ہے۔

کمیشن نے یونیورسٹی کے قیام سے لے کر اب تک حکومت کی جانب سے یونیورسٹی کو ہر سال جاری کئے جانے والے فنڈس کی بھی تفصیلات مانگی ہے۔

خبر ہے کہ این سی ایس سی چیرمن جولائی2کے روز ایچ آر ڈی منسٹری اور یوجی سی انتظامیہ سے ملاقات کریں گے۔

اب منسٹری نے یونیورسٹی کے اقلیتی موقف کی حمایت سے دستبرداری اختیار کرلی ہے اور 30جولائی 2016کو عدالت سے رجوع ہوئی اور کہاجارہا ہے کہ اے ایم یو کے لئے اقلیتی موقف کبھی تھا ہی نہیں۔

جولائی6کو لکھے گئے لیٹر میں این سی ایس سی نے کہاہے کہ ’’ اے ایم یو اگر کوئی تحفظات جاری نہیں کرتا ہے تو ( کیا وجہہ تھی کہ) اے ایم یو کو ایچ آرڈی نے سالانہ دیکھ بھال کا خرچ جاری کیاہے۔

تنازع اس وقت پیدا ہوا جب اترپردیش ایس سی ‘ ایس ٹی کمیشن نے اے ایم یو کو ایک نوٹس جاری کرتے ہوئے پوچھا کہ یونیورسٹی میں تحفظات پالیسی کی خلاف ورزی کیوں جارہی ہے باوجود اس مرکزی حکومت سے یونیورسٹی کو فنڈز بھی مہیاکرائے جاتے ہیں اور ایک قومی یونیورسٹی کے طرز پر فیکلٹی کا تقرر بھی عمل میں آتا ہے۔

جب تک اقلیتی موقف ثابت نہیں ہوجاتاتب تک تمام اقلیتی اداروں بشمول ایس سی ‘ ایس ٹی اداکارں و میں تحفظات کا قانون نفاذ کرنے کی ہدایت این سی ایس سی نے دی ہے۔ کمیشن کے چیرمن رام شنکر کاٹاریہ کے مطابق اے ایم یو تیس ہزار طلبہ کے اندرج پر بند ہوتا ہے جس میں پندرہ فیصد ایس سی اور 7.5فیصد ایس ٹی طبقے کے طلبہ کو داخلہ دینا چاہئے