نئی دہلی۔ اگر وزیراعظم نریند رمودی نے مہینوں قبل اترپردیش کی عوام کو جو پیغام دیا تھا اس پر غور کرنے شروع نہیں کریں گے تو 2019میں ان کادوبارہ وزیراعظم بننا مشکل ہوجائے گا۔
پچھلے ہفتہ کیرانہ سے سنائی دینے والی والی آواز کیا موت کا پیغام تھی یا پھر انتباہ؟ یہ کہنا ذرا مشکل ہے۔
مگراگر وزیراعظم نریند رمودی نے مہینوں قبل اترپردیش کی عوام کو جو پیغام دیا تھا اس پر غور کرنے شروع نہیں کریں گے تو 2019میں ان کادوبارہ وزیراعظم بننا مشکل ہوجائے گا۔ پہلے روز سے دونوں وزیراعظم نریند رمودی اور صدر بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنی مقبول ریاست یوگی ادتیہ ناتھ کا بطور چیف منسٹر تقرر عمل میں لاکر غلط پیغام دیا ہے۔
ووٹ ہندوتوا کے ہر گز نہیں تھے اور یوگی کے تقرر کے بعد سے جس طرح کے اقدامات اٹھائے گئے اس سے تویہی سمجھا جارہا تھا۔ پچھلے سال جب لوگوں نے بی جے پی کو ریاست اترپردیش میں403میں سے 325پر جیت دلائی تووہ اس لئے تھا کیونکہ انہو ں نے مودی کے تبدیلی اور ترقی کے وعدے پر بھروسہ کیاتھا۔
انتخابی مہم کے دوران دیہی اترپردیش میں گھومتے وقت گاؤں در گاؤں لوگ اچھے اسکولوں ‘ سڑکیں او راسپتال کا مطالبہ کررہے تھے۔ ہم نے بنا ء کلاس روم کے اسکول‘ بناء ڈاکٹرس کے اسپتال دیکھیں اور بریک لکیر سے بڑی گاؤ ں کی سڑکیں نہیں تھیں۔
لوگوں کو یہی ماننا تھا کہ طبقہ واری اساس پر پارٹی او رمندر اور مسجد کے نام پر تقسیم کرنے والے لیڈروں کو ووٹ دینے کی وجہہ سے یہ حال ہوا ہوگا۔جب ایک پجاری جس کے سیاسی مستقبل کی شروعات رام جنم بھومی تحریک تھی اس کے لئے تقرر بڑے مسئلہ تھا۔
جیسے ہی اس نے جائزہ لیاتو یوگی ادتیہ ناتھ کی تمام تر توجہہ اس کاروبار کو بند کرنے پرلگادی جس سے مسلمانو ں او ردلتوں کی نوکریا ں وابستہ تھیں۔ غیرلائسنس یافتہ ہونے کی وجہہ سے گوشت کی دوکانیں او رفیکٹریاں بند کردی گئی مگر اس سے کئی لائسنس یافتہ کاروبار بھی متاثر ہوئے ۔
ہندوتوا کارکنوں کی جانب سے گائے کے نام پر قتل او رلوجہاد کے نام پر حملے شروع ہوئے۔ تبدیلی او رترقی کی بات زیادہ دیر تک ٹک نہیں سکی۔
اسکے بعد ضمنی انتخابات کا دورشرو ع ہوا جس میں جتنے شدت کے ساتھ پارٹی کی جیت ہوئی تھی اتنی ہی شدت کے پاس پارٹی کو شکست کاسامنا کرنا پڑا ۔ ان علاقو ں سے جہاں کی نمائندگی پچھلے پانچ مرتبہ سے خود چیف منسٹر یوگی ادتیہ ناتھ نمائندگی کرتے آرہے ہیں۔
گورکھپور اور پھلپور کے بعد کیرانہ میں بی جے پی کوشرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ کیرانہ کی جیت سے تبسم حسن اترپردیش سے لوک سبھا کو جانے والی نہ صرف پہلی مسلم رکن پارلیمنٹ بنی بلکہ ان کی جیت کو اس حلقہ میں اچھائی کی جیت مانا جارہا ہے