بھیم آرمی کی بساط پر کس طرح ہورہا ہے کہ شئے او رمات کا کھیل
پچھلے چار سالوں میں پیش ائے سیاسی اور سماجی حالات سے چار خود ساختہ سیاسی گٹھ جوڑ کو بھی فروغ ملا ہے۔
ان میں سے ہاردیک پٹیل‘الیپش ٹھاکراور جگنیش میوانی کا کردار تو گجرات اسمبلی انتخابات کے موقع پر طئے ہو ہی گیاتھالیکن بھیم آرمی کے چیف چندرشیکھر آزاد کاابھی طئے ہونا باقی ہے۔
پچھلے سال اترپردیش کے سہارنپور ضلع میں پیش ائے ذات پات کے جھگڑے کی وجہہ سے سرخیو ں میں ائے تھے۔
اترپردیش نے جس طرح سے ان کے خلاف نیشنل سکیورٹی قانون کا استعمال کیا ہے اس سے انہیں دلت سماج میں نئی شہرت بھی مل گئی۔
پچھلے ہفتے یوپی حکومت نے نیشنل سکیورٹی قانون کو ہٹاتے ہوئے انہیں جیل سے رہا کردیا۔اچانک حکومت کے اس نرم رویہ سے پہلے تو ایسا محسوس ہورہاتھا کہ بی جے پی اور بھیم آرمی کے درمیان کچھ معاہدے ضرورہوا ہے
مگر جیل سے رہائی کے فوری بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے 2019کے الیکشن میں ان کا مقصد بی جے پی کو شکست فاش کرنا ہوگا جیسا بیان دیتے ہوئے انہوں نے بی جے پی سے بھیم آرمی کے معاہدے کے متعلق لگائے جارہے تمام قیاسوں کو مسترد کردیا۔
حالانکہ انہو ں نے بی ایس پی سربراہ مایاوتی کو بوا کہہ کر انہو ں نے اپنے رشتوں کی طرف اشارہ بھی کیا مگر مایاوتی نے اس رشتہ کو خارج کرنے میں دیر نہیں لگائی۔
دراصل اس تمام واقعہ کے پس پردہ شئے اور مات کا کھیل چھپا دیکھائی دے رہا ہے۔چندرشیکھر آزاد کے متعلق بی جے پی کے نرم رویہ کی دو وجوہات ہیں۔
پہلے تو بی جے پی کو اس با ت کا احساس ہے ہوا ہے کہ اونچی ذات کو خوش کرنے کے لئے چندرشیکھر پر سخت کاروائی سے اس کے ووٹوں کو جتنا فائدہ ہوتا دیکھائی دے رہا ہے اس سے کہیں زیادہ نقصان کا سامنا بھی ہورہا تھا۔ یکطرفہ کاروائی سے دلت سماج میں ناراضگی بڑھتی جارہی تھی۔
دوسر ی وجہہ مایاوتی کو کاونٹر کرنے کے لئے بی جے پی دلت سماج میں چندرشیکھر راؤ کو سرگرم رکھنا چاہتی ہے۔بی جے پی کو
لگتا ہے کہ بھیم آرمی جتنا پاؤں جمائے گی ‘ بی ایس پی کو نقصان کرے گی۔ ایس پی بی ایس پی گٹھ جوڑ کی امیدوں سے پہلے سے ہی پریشان چل رہی بی جے پی اس وقت کسی بھی صورت میں بی ایس پی کو کمزور دیکھنا چاہتی ہے۔
بی جے پی کی حکمت عملی کے حساب سے چندرشیکھر اس کا ٹرمپ ثابت ہوسکتے ہیں۔اسی کے تحت بی جے پی اپنے رابطوں کے ذریعہ چندرشیکھرکے لئے رتھ یاترا ‘ ریالیاں کا انعقاد شروع کرنا چاہتی ہے۔
کانگریس جس طرح ہاردیک پٹیل‘ جنگیش میوانی اور الپیش ٹھاکر کو اپنے پالے میں لینے میں کامیاب ہوئی ہے ٹھیک اسی طرح وہ چندرشیکھر کو بھی اپنی سمت کرنے کی مہم پر ہے۔ دوطریقوں پر کام ہورہا ہے۔
ایک الپیش کی طرح پارٹی میں شامل کرتے ہوئے تنظیم کی بڑی ذمہ داری تفویض کردینا ۔ اگر چندرشیکھر راضی نہیں ہوئے تو پھر ہاردیک کی طرح ہاتھ ملاکر بی جے پی کے خلاف کانگریس کے ساتھ کھڑا کرسکتے ہیں۔
ویسٹ اترپردیش سے تعلق رکھنے والے کانگریس کے ایک بڑے لیڈر چندرشیکھر سے رابطے میں ہیں۔جیل سے چھوٹتے ہی چندرشیکھر نے مایاوتی کو ’بوا‘ بتایا لیکن مایاوتی نے چندرشیکھر اور بھیم آرمی سے کوئی رشتہ نہ رکھنے کی بات کہی۔
بی ایس پی چیف کو لگتا ہے کہ چندرشیکھر کا ساتھ لینے سے فوری طور سے فائدہ تو مگر طویل مدتی نقصانات کافی ہیں۔
چند ر شیکھر کو ایک مرتبہ سیاسی مضبوطی مل گئی تو پھر مستقبل میں دلت سماج میں ان کا مقبولیت ہے وہ خطرے میں پڑجائے گی۔ بی ایس پی کے ایک سینئر لیڈر نے این ڈی بی سے آف دی ریکارڈ بات کرتے ہوئے کہاکہ بی ایس پی کی بیساکھی کے سہارے اگر بھیم آرمی عروج مل گیاتو پارٹی اور قیادت دونوں کی تشویش بڑھ جائے گی۔