بی جے پی نے مندر کو ایودھیا میں دھیمی آگ پر رکھا ہے
سال1989کے بعد پہلی مرتبہ ٹاؤن میں مندر پارٹی کا اہم موضوع نہیں رہا ہے۔
فیض آباد۔ ایودھیا میں متنازعہ مقام کے قریب رہنے والے ایک پجاری پلٹو رام پانڈے نے کہاکہ”یہ وقت کا معاملہ ہے مگر یقینی طور پر اس کی تعمیر ہوگی“۔
بی جے پی کی بھر پو راکثریت کے ساتھ حکومت میں آنے کے بعد بھی مندر کی تعمیر نہ ہونے سے مایوس مسٹر پانڈے نے الجھن بھرا جواب دیا۔
انہوں نے کہاکہ وزیراعظم مودی نے جو کہاتھا وہ کیامگر قانونی کاروائی اور کانگریس اس میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
ایودھیا میں ہوئے جن ترقیاتی کاموں سے وہ متاثر ہیں ان میں اسٹریٹ لائٹس‘ برقی کی بہتر سربراہی او رسڑکیں اور یوگی ادتیہ ناتھ حکومت کی جانب سے دیپاولی کے موقع پر ٹاؤن میں لگائے گئے چراغ ہیں۔ جو شہر بابری مسجد‘ رام جنم بھومی مسلئے پر بین الاقوامی سرخیاں بٹورا تھا وہاں پر یہ اس تنازعہ کا رائے دہندوں میں بہت کم ہی ذکر کیاجاتا ہے۔ مذکورہ رائے مسٹر مودی کے اردگرد پولرائز ہورہی ہے۔
اور یہ بھی اتفاق کی بات ہے کہ 1989کے بعد پہلی مرتبہ وشواہندو پریشد(وی ایچ پی) جس نے مندر کا مسئلہ اٹھایاتھا اس الیکشن میں سرگرم نہیں ہے۔مندر کے شہر سے تیس کیلومیٹر کے فاصلے پر واقع گوسائی گنج میں ایک الیکشن ریالی سے خطاب کرتے ہوئے مسٹر مودی نے اپنی ترجیحات واضے کردئے تھے۔
انہوں نے رام مندر کے نام لینے سے گریز کیا اور ایودھیا کو ”بھگوان رام“ کی زمین اور ”ملک کا وقار“ قراردیا۔انہوں نے اپنی تقریر کا اختتام ”جئے شری رام“ کا تین مرتبہ نعرہ لگاکر کیا۔
وہیں اپوزیشن جماعتیں مسٹر مودی پر ایودھیا کو نظر انداز کرنے کے حوالے سے تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں‘ اس کے جواب میں بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ لالو سنگھ نے وزیراعظم کے بچاؤ میں کہاکہ مصروف ترین دوروں کی وجہہ سے وہ عارضی مندر جانے سے قاصر رہے ہیں۔
مسٹر سنگھ نے ایک نیوز چیانل سے کہاکہ گوسائی گنج کا انتخاب دو حلقوں ایودھیا اور امبیڈکر نگر کے احاطے کے مقصد سے کیاگیا ہے