بی جے پی صدر امیت شاہ صحیح ہیں‘ اخلاق کی موت سے ہوسکتا ہے ان کی پارٹی کو شکست نہیں ہوئی ہو۔ مگر کیایہ اس موقف کی جیت ہے جس میں’ سب کا ساتھ سب کاوکاس‘ کہاگیاتھا۔
چہارشنبہ کے روز بی جے پی صدر امیت شاہ نے جئے پور میں اپنے تقریر کے دوران جس طرح کی زبان کااستعمال کیاہے وہ ایک وارننگ سمجھی جارہی ہے۔
یہ ایک اشارہ ہے 2019کی انتخابی تیاریوں کی شروعات ہوگئی ہے۔یہ ایک انتباہ ہے کہ مہم توقعات او رامیدوں سے کہیں زیادہ خطرناک مہم ہوگی۔
مرکز اور زیادہ تر ریاستوں میں برسراقتدار پارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے شاہ نے کیاکہ‘ جو الفاظ کا انہوں نے انتخاب کیامعنی رکھتا ہے۔
اگر بی جے پی کے صدر غیر قانونی بنگلہ دیش( مسلمان) تارکین وطن کو یہ کہتے ہوئے دھمکی دیتے ہیں کہ ’’ چن چن کر نکالوں گا‘‘وہیں ہندوؤں کا خیرمقدم کرتے ہیں اور انہیں’’ اپنے بھائی ‘‘ اور ’’ پناہ گزین ‘‘ قراردیتے ہیں‘
اگر وہ 3ستمبر قبل پیش ائے بیف کے استعمال کا شبہ پر بے رحمی کے ساتھ دادری میں ماردئے جانے والے 50سالہ محمد اخلاق کا حوالہ دیتے ہیں اور مذکورہ ’’ ایوارڈ واپسی‘‘ مہم کی بات کرتے ہوئے کہتے ہیں
یہ تمام چیزیں بی جے پی کی جیت پر رکاوٹ نہیں بن سکتی ‘ اگر وہ انسانی حقوق کے کارکنوں کی گرفتاریوں پر غیرمصدقہ باتیں کرتے ہیں اور سیول سوسائٹی کے خلاف اپنی برہمی کا اظہار کرتے ہیں
او راس کو ’’ قومی سکیورٹی‘‘ سے مربوط کرتے ہیں تو واضح طور پر اس مطلب یہی ہوا کہ وہ ملک کو نئی سیاست کی راہ پر لے جارہے ہیں۔بی جے پی نے ہمیشہ ایک ہی سانس میں ترقی او ر تبدیلی‘ ہندوستان او رسخت قوم پرستی‘ امید اور ڈر کے متعلق بات کی ہے۔
جب سے2014میں بی جے پی اقتدار میں ائی ہے اپنی معیاد میں ان عناصر کو اپنی حربہ میں نہ صرف استعمال کیاہے بلکہ اس کو متصادم بنانے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی۔
مگر شاہ اگر جئے پور میں مختلف مسائل کے ذریعہ اخلاق کی بے رحمی سے موت‘ بنگلہ دیشی تارکین وطن‘ این آر سی‘ سرجیکل اسٹرائیک او راربن نکسل جیسے مسائل کوموضوع بحث بنایا ہے تو یہ 2019کر نہایت اہم الیکشن میں بی جے پی کی حمایت میں ووٹ حاصل کرنے کے لئے سخت اور تنگ نظریہ پیش کیاہے
۔وہیں ’’ سب کاساتھ ‘ سب کا وکاس‘‘ پالیسی کے بجائے محض نعرہ ثابت ہوا ہے۔اس کی ایک جھلک بی جے پی پارٹی کے صدر کی جئے پور میں ہوئی تقریر میں بھی نظر ائی۔