بی جے پی اور پی ڈی پی کی دوستی آخر کیوں چاقو کی نوک پر ہے

مذکورہ اتحاد کشمیر میں تیسرے متبادل کی تلاش کی کوششیں کررہا ہے۔ کیابی جے پی اور پی ڈی پی اتحاد اپنی معیاد تکمیل کریگا؟ کتھوا کامعاملہ بڑا خلل پیدا کرسکتا ہے۔ چیف منسٹر محبوبہ مفتی اگر اتحاد توڑتی ہیں تو پلک جھپکتے ہی وسط مدتی انتخابات تک صدر راج نافذ ہوجائے گا ‘ دوسری طرف الیکشن کی صورت حال پیدا ہوتی ہے تو عمر عبداللہ کی نیشنل کانفرنس کو بڑی کامیابی ملے گی۔ بی جے پی بھی اتنی ہی پریشان ہے۔

ہندوستان کی واحد مسلم اکثریت والی ریاست میں اقتدار پر قائم رہنے کے متعلق ان کا خواب چکنا چور ہوجائے گا۔ یہی وجہہ ہے کہ بڑے پیمانے پر بی جے پی کے جموں او رکشمیر منسٹر س کے اجتماعی استعفیٰ کے باوجود اتحاد محفوظ ہے۔ مگر یہ کچھ وقت کے لئے ہے۔ بی جے پی سے تین سال قبل ہاتھ ملانے کے بعد پی ڈی پی کے کچھ حدتک مسلم وونوں کا نقصان ہوا ہے۔

پی ڈی پی کے بانی مفتی محمد سعید کے جنوری2016میں انتقال کے بعد پچھلے دوسالوں میں خراب گورننس چل رہی ہے جس کا مزیداثر پی ڈی پی کے ووٹ بینک پر یقیناًپڑا ہے۔

آج کی تاریخ میں اگر انتخابات کرائے گئے تو وادی میں بھاری اکثریت کے ساتھ نیشنل کانفرنس کی حکومت بنے گی۔ وادی میں گونج رہی آوازوں کو پچھلے ہفتہ محبوبہ کے بھائی تصدیق حسین نے ایک انگریزی روزنامہ کو انٹرویوکے دوران اپنے انداز میں پیش کیاتھاکہ’’ پی ڈی پی اور بی جے پی جرائم کے ساتھی ہیں جس کا قیمت کشمیر کی عوام کو اپنے خون سے ادا کرنا پڑیگی‘‘۔

چھ سال بعد ڈسمبر2014میں اقتدار سے محروم ہونے والی عمر عبداللہ کی نیشنل کانفرنس کا اگر جائزہ لیاگیا تو 2010کے گرما میں پتھر بازی کے دوران ایک سو کشمیری کی موت سامنے ہے۔یہ کشمیر کی بدقسمتی ہے کہ اس کی سیاست دودور حکمرانی تک محدود ہے کہ ایک عبداللہ اور دوسرا مفتی‘ جب کے تیسرا متبادل ریاست میں پیدا ہی نہیں ہوا۔

بی جے پی او رپی ڈی پی اتحاد تیسرے متبادل کی تلاش کی کوشش کا حصہ مگر اس کی شروعات کافی دو ردیکھائی دے رہی ہے۔ بی جے پی کو متحدہ حکومت کی ناکامیوں کوقبول کرنا ہوگا۔ جس میں کشمیری پنڈتوں کی بازآبادکاری کاوعدہ بھی شامل تھا۔ سال2014کے دوران کشمیر میں ائے سیلاب کے متاثر زدگان کے لئے تباہ بنیادی سہولتوں کی بازیابای کے فنڈس کی سست رفتاری سے اجرائی ۔

ریاست کے تعلیمی اور طبی نظام میں بہتری لانے کے وعدے اس میں شامل تھے۔ درایں اثناء پاکستان مسلسل وادی میں وہابیت کو فروغ دینے کاکام کررہا ہے۔ سکیورٹی فورسس نے ایل ای ٹی‘ جے ای ایم اور حزب المجاہدین کے250دہشت گردوں کو مار گرایا

۔مگرایسے دہشت گردوں کو پاکستانی فوج کی جانب سے بھر پور مدد مل رہی ہے۔نوجوان جہادیوں کی بلارکاوٹ سپلائی اور ان کے گھر والو ں کو معاشی مدد وادی میں خون کے بہاؤکا سبب بنا ہوا ہے۔مرکزی او رریاستی حکومت کے درمیان پالیسیوں اور ریاست کی نسل واری سیاست کے اثر کشمیر کے بنیادی مسائل سے روگردانی کا سبب بن رہا ہے۔

محبوبہ کو ان کے والد کی وراثت سے اقتدار ملا ہے۔انہوں نے اپنے چھوٹے بھائی تصدیق کو ریاست کا وزیر صحت مقرر کیا۔دوسرے کشمیر ی خاندان میں بھی اسی طرح کا زہر ہے۔ جموں کشمیر کی آزادی کے بعد سے عبداللہ خان کی تین نسلیں اقتدار پر فائز ہیں۔

کشمیر جانے والا کوئی بھی سیاح وہاں کے حالات او رانفرسٹچکر کو دیکھ کر یہ ضرور کہے گا کہ عبداللہ نے1947سے کشمیر کے لئے کیاکیاہے؟سری نگر میں تھیٹرس جہاں پر بالی ووڈ او رہالی ووڈ فلمیں دیکھائی جاتی ہیں۔

اسلامی نظریہ کی ایک لہر نے سری نگر کو سنیما فری کردیا تھا وہ بھی اس دور میں جب سعودی عرب کے 1970میں ریاض میں پہلی مرتبہ سنیما تھیٹر کو منظوری دی گئی تھی۔شیخ عبداللہ کے جواہرلا ل نہرو سے بے حد قریبی تعلقات تھے‘ جنھوں نے انہیں کئی سالوں تک جیل میں بند رکھا تھا۔

فاروق عبداللہ کے راجیو گاندھی کے ساتھ اس سے بہتر تعلقات تھے ۔ اس قدر بہتر تھے کہ 1987کے جموں کشمیر اسمبلی انتخابات میں دونوں مبینہ طور پر ساتھ میں الیکشن لڑا‘ جس کی وجہہ سے 1989میں ریاست کے اندر بڑے پیمانے کی بغاوت بھی سامنے ائی۔

پچھلے تیس سالوں سے اس بغاوت کاخمیازہ کشمیرکی عوام کوبھگتنا پڑرہا ہے پھر تصدق کا ڈر ہے کہ کشمیرکی نئی نسل کو اس کی قیمت چکانے پڑرہی ہے۔

کشمیریوں کومعلوم ہے کہ سرحد کے اطراف واکناف پاکستان میں انہیں کوئی موثر متبادل نہیں ہے۔ انہو ں نے دیکھا کہ کشمیریوں کے ساتھ پاکستان کے مقبوضہ کشمیر ( پی او کے ) میں کس طرح کاسلوک کیاجاتا ہے۔ پاکستان کے ساتھ جانے کی ان کی کوئی مرضی نہیں ہے۔

وادی میں رہنے والے پاکستانی ایجنٹ ہندوستانی فوج پر پتھر برسانی اور پاکستانی پرچم لہرانے کاکام کررہے ہیں۔ حریت علیحدگی پسندوں میں ایک پاکستان فنڈس اور تربیت سے پیدا کئے جارہے دہشت گردوں کا ایک ڈھکا ہوا چہرہ ہے۔

پاکستان نہیں چاہے گا کا کشمیر کی آزادی چاہنے والے نوجوان ائی اے ایس افیسر بنیں ‘ ائی پی ایل میں کھیلیں اور ہندوستان کی ترقی کا حصہ بنیں۔جموں کشمیر کے لئے اگے کیا؟ وزیراعظم نریند ر مودی انتخابات کے قریب صدر راج نہیں چاہیں گے۔

اسی وجہہ سے با ت چیت کا سلسلہ جاری رہے گا۔ مذکورہ بی جے پی او ر پی ڈی پی اتحاد جب تک رہے چلتا رہے۔ بی جے پی منسٹر س کے اجتماعی استعفوں کے بعد اتحاد میں محبوبہ کے قد کا اندازہ اچھی طرح ہوگیاہے۔

بی جے پی وادی کے دنوں حصوں میں اپنی ہار سے نہیں بچ سکتی‘جو سابق میں کبھی بھی اس کے ساتھ نہیں ہوا تھا او رجموں میں انتخابات سے قبل کئے گئے وعدوں کی عدم تکمیل کا اثر اس پر پڑیگا۔ بی جے پی اور پی ڈی پی کا اتحاد خود غرضوں کی شادی ہے