بی ایس پی لیڈر نسیم الدین صدیقی کی کانگریس میں شمولیت کے بعد پارٹی کے اندر مخالف کے سر

پارٹی کے جاری کردہ ایک بیان میں کہاگیا ہے کہ’’ اترپردیش کانگریس کمیٹی نے مسٹر نسیم الدین صدیقی کی شمولیت پر پارٹی کے اندر اٹھائے جانے والے اعتراضات اور فیس پر دیگر لوگوں کے تبصرے پارٹی ڈسپلن کی خلا ف ورزی قراردیاگیا ہے‘‘۔
لکھنو۔بی ایس پی سے نکالے گئے لیڈر نسیم الدین صدیقی کے کانگریس میں شمولیت اختیار کرنے کے اندر ون تین روز پارٹی کے اندر ہی ان کی مخالفت کے سر دیکھائی دے رہے ہیں۔

نسیم الدین صدیقی کے داخلہ پر اعتراض جتاتے ہوئے سوشیل میڈیا پر تبصرہ کرنے والے دو لیڈران سے پارٹی نے وضاحت طلب کی ہے۔پارٹی کے جاری کردہ ایک بیان میں کہاگیا ہے کہ’’ اترپردیش کانگریس کمیٹی نے مسٹر نسیم الدین صدیقی کی شمولیت پر پارٹی کے اندر اٹھائے جانے والے اعتراضات اور فیس پر دیگر لوگوں کے تبصرے پارٹی ڈسپلن کی خلا ف ورزی قراردیاگیا ہے‘‘۔

پارٹی کے تنظیمی امور کے سکریٹری سنجے ڈکشٹ او ر سکریٹری اودیش سنگھ سے اس ضمن میں ڈسلپنری کمیٹی کے رکن فاضل مسعود نے وضاحت طلب کی ہے۔پارٹی ذرائع نے کہاکہ مسٹر ڈکشٹ نے صدیقی کی کانگریس میں شمولیت پراعتراض کرتے ہوئے سلسلہ وار فیس بک پوسٹ کئے تھے۔ ان کا دعوی تھا کہ یوپی کانگریس لیڈرس پارٹی صدر راہول گاندھی کو اس ضمن میں گمراہ کیا ہے۔

مسٹر ڈکشٹ نے فیس بک پر لکھاتھا کہ’’مایاوتی حکومت میں صدیقی بہت ساری بدعنوانیو ں میں ملوث رہے ہیں اور وہ مایاوتی کا دائیں ہاتھ رہے ہیں۔ اس طرح کا شخص ایسی پارٹی میں شامل ہوسکتا ہے جبکہ صدر صاف ستھری سیاست کی وکالت کرتے ہیں‘‘۔

ڈکشٹ کا فیس بک پوسٹ میں لکھاتھا کہ’’ مقامی کانگریس قائدین مسٹر صدیقی کے ساتھ کسی بڑے معاہدے میں اٹک گئے ہیں کیونکہ وہ اچھی میاچ فکسنگ کرتے ہیں‘‘۔

جب مسٹر ڈکشٹ سے رابطہ قائم کیاگیا تو انہوں نے کہاکہ میں صدر کانگریس سے راست ملاقات کرتے ہوئے انہیں تمام حقیقت سے واقف کراؤں گا۔مسٹر سنگھ نے مسٹر صدیقی کی مخالفت کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہاکہ بی ایس پی کے لکھنو میں ایک احتجاج کے دوران صدیقی کے ٹھاکر سماج کے متعلق توہین آمیز تبصرہ کیاتھا۔نسیم صدیقی نے اسی ہفتہ دہلی میں کانگریس پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی جنھیں مخالف پارٹی سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر مایاوتی کی زیر قیادت بی ایس پی پارٹی سے برطرف کردیاگیاتھا۔