’بین الاقوامی پینل روہنگیائی بحران پر پردہ ڈالنے سوچی کی سازش ‘

 

آنگ سان سوچی میں اخلاقی قیادت کا فقدان
پینل صرف پردہ داری کا کام کررہا ہے
حکومت کی مدح سرائی کرنے والے اسکواڈ کا
حصہ بننا نہیں چاہتا، سابق امریکی سفارتکار کا فیصلہ
نیویارک،25جنوری (سیاست ڈاٹ کام) سابق امریکی سفارتکار بل رچرڈسن نے میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی کے روہنگیا بحران پر مشاورت کے لیے تشکیل کردہ بین الاقوامی پینل سے استعفیٰ دے دیا ہے ۔ان کا دعویٰ ہے کہ پینل ایک ‘وائٹ واش’ یعنی پردہ ڈالنے کا کام کرنے والا تھا اور اس مسئلے پر آنگ سان سوچی میں ‘اخلاقی قیادت’ کا فقدان پایا جاتا ہے ۔میانمار کی حکومت نے اس پر کسی ردعمل اظہار نہیں کیا تاہم پینل کے ایک اور رکن کا کہنا تھا کہ رچرڈسن کا بیان غیرمنصفانہ ہے ۔گذشتہ سال میانمار میں فوجی کارروائیوں کے بعد ساڑھے چھ لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمانوں نے ہمسایہ ملک بنگلہ دیش نقل مکانی کی تھی۔میانمار کی شمالی ریاست راکھین میں فوجی کارروائی کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر ہونے والی نقل مکانی کو اقوام متحدہ نے ‘نسل کشی کی مثال قرار دیا تھا تاہم میانمار ان الزامات کی تردید کرتا ہے ۔کلنٹن انتظامیہ کے سابق مشیر بل رچرڈسن کا کہنا تھا کہ ‘میرے مستعفی ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ مشاورتی بورڈ ایک وائٹ واش ہے ۔انھوں نے خبررساں ادارہ رائٹرکو بتایا کہ وہ ‘حکومت کی مداح سرائی کرنے والے اسکواڈ کا’ حصہ نہیں بننا چاہتے ۔ان کا کہنا تھا کہ پیر کو آنگ سان سوچی کے ساتھ ملاقات میں جب انھوں نے آفیشل سیکریٹس ایکٹ کے خلاف ورزی کے مقدمے کا سامنا کرنے والے رائٹر کے دو صحافیوں کا معاملہ اٹھایا تو ان کی بحث شروع ہوگئی۔یہ صحافی اس وقت روہنگیا بحران پر رپورٹنگ کر رہے تھے ۔ان کا کہنا تھا کہ سوچی ’غضبناک‘تھیں اور اس بات پر زور دے رہی تھیں کہ یہ مقدمہ مشاورتی بورڈ کے کاموں میں شامل نہیں ہے ۔بل رچرڈ سن آنگ سان سوچی کو 1980 کی دہائی سے جانتے ہیں اور ان کے بارے میں ان کہنا تھا کہ انھیں اپنی ٹیم کی جانب سے اچھی ہدایات نہیں مل رہیں۔وہ انھیں بے حد پسند کرتے ہیں اور ان کی عزت کرتے ہیں لیکن انھوں نے راکھین کے معاملے پر اخلاقی قیادت کا مظاہرہ نہیں کیا، اور الزامات عائد کیے ،اور مجھے اس پر پشیمانی ہے۔ راکھین ریاست سے متعلق سوچی حکومت نے ایڈوائزری بورڈ فار دی کمیٹی فار امپلیمینٹیشن آف ریکمینڈیشنز گذشتہ سال قائم کی تھی۔بل رچرڈسن کے مستعفی ہونے سے پہلے اس میں دس ارکان تھے جن میں سے پانچ غیرملکی تھے ۔ان میں سابق جنوبی افریقی وزیر دفاع روئلوف میئر بھی شامل ہیں جنھوں نے دیگر بورڈ ارکان کے ساتھ راکھین کا دورہ کیا تھا۔انھوں نے رائٹر کو بتایا کہ یہ دورہ ‘بہت تعمیری’ رہا ہے اور کہا کہ ایسی کوئی بات کہ یہ بورڈ ‘محض ایک حکومتی آواز ہے ، بالکل غیرمنصفانہ، غلط ہے ۔ ہم نے ابھی تک کوئی تجاویز پیش نہیں کی ہیں۔