رام راج رتھ یاترا ایک ایسے وقت میں نکالی جارہی ہے جب سپریم کورٹ میں بابری مسجد کی اراضی ملکیت معاملی میں سنوائی آخری مراحل میں ہے۔
کیااس طرح کی یاترا نکالنا عدالت کو چیالنج کرنے کے مترادف نہیں۔
سال 1980کے دہی میں ملک کی تاریخ نے ایک نیا موڑ لیاتھا۔ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ رام مندر جیسا حساس موضوع معاشی اور سماجی اہم موضوعات سے زیادہ اہمیت کا حامل ہوگیاتھا۔ بابری مسجد کا تالا کھولنے کے بعد لال کرشنا اڈوانی نے رتھ یاترا نکالنے کا منصوبہ بنایا۔ اس وقت کے وزیراعظم وی پی سنگھ کی جانب سے منڈل کمیٹی کی سفارشات کو نافذ کرنے کے اعلان کے بعد ‘ اس یاترا میں مزید شدت پیدا کی گئی۔مذکورہ یاترا فرقہ وارانہ اساس پر سماج کو تقسیم کرنے والی سب سے بڑا واقعہ ثابت ہوئی ۔ رتھ یاترا اپنے پیچھے خون کی ایک گہری اورموٹی لکیر چھوڑ گئی۔
اس کے بعد بابری مسجد کو ڈھانے کاکام کیا گیا اور بی جے پی کی طاقت میں زبردست اضافہ ہوا ۔ بی جے پی کو جو اس وقت گاندھی واد اور سماج واد کا لبادہ اڑھے ہوئی تھی‘ کو انتخابات میں زبردست منھ کی کھانی پڑی تھی۔ رتھ یاترا اس کے لئے مردے میں جان ثابت ہوئی۔ انتخابات میں اس کا مظاہرہ شاندار ہوا اور 1996میں اس نے مرکز میں کم تعداد میں صحیح حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی ۔ اس کے بعد 1998میں وہ این ڈی اے گروپ کی سب سے بڑی پارٹی بن کر اقتدار میں اور 2014میں بی جے پی کو اکثریت حاصل رہی ۔انتخابات میں بار بار اس فارمولے کو استعمال کرنے کا جیسے تجربہ ہوگیا۔ انتخابات کے عین قریب بی جے پی رام مندر جیسے مذہبی نوعیت کے حساس مسلئے کو اچھالنے لگتی ہے۔ اس کے ساتھ وندے ماترم‘ لوجہاد‘ مقدس گائے جیسے موضوعات کا امتزاج تیار کرتے ہوئے اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
کیونکہ اگلے سال ملک میں عام انتخابات ہونے والے ہیں ‘ اس لئے بی جے پی کو ایک با ر پھر بھگوان رام کی یاد ستانے لگی۔اس بار رام بھروسے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کی شروعات آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھگوات نے اڈوپی میں نومبر2017کے دوران وی ایچ پی دھرم سنسد سے کی ہے۔ وی ایچ پی نے بغاوت کے اشارو ں کو سمجھ کر اور مسلم راشٹریہ منچ کے اشتراک سے اترپردیش کے ایودھیا سے لیکر تاملناڈو کے رامیشورام تک رام راج رتھ یاترا کی شروعات کی۔ مہارشٹرا کی جو تنظیمیں اس یاترا میں شامل ہے اس کانام ہے کہ شری رام داس مشین یونیورسل سوسائٹی۔]
اس یاترا کی رتھ کو جس طرح کے خدوخال دیاگیا ہے وہ ایودھیا میں زیر تجویز رام مندر کے طرز پر ہے۔ اس یاترا کا اہم مقصد سیاسی ہے اور اس کے نشانہ وہی ہے جو ہندوراشٹروادیوں کا ہے۔جن مطالبات کو لے کر یہ یاترا نکالی جارہی ہے جس میں رام راج کا قیام‘ ایودھیا میں عالیشان رام مندر کی تعمیر‘ رامائن کو اسکولی نصاب میں شامل کرنے او راتوار کے بجائے منگل کے روز تعلیمی اداروں کو تعطیل دینا شامل ہے۔مسلم راشٹریہ منچ آر ایس ایس کی ہاتھوں کا کھلونا ہے۔
اس کا استعمال وقتافوقتا وہ یہ دیکھانے کے لئے کرتی ہیں کہ مسلمان بھی ہمارے ساتھ ہیں۔سچ یہ ہے کہ بیشتر مسلمانوں کو اب یہ بات سمجھ میں اگئی ہے کہ لو جہاد‘ بیف‘ ترنگا جیسے موضوعات پر تشدد بھڑکا کر مسلمانوں کود وسرے درجہ کا شہری بنانے کی سازش رچی جاری ہے۔ ملک میں سولہ کروڑ مسلمان ہیں اور ان میں ظفر سریش والا جیسے مسلمانوں کو تلاش کرکے نکالنا مشکل نہیں ہے۔ جو اقتدار کے مز ے لوٹے کے بی جے پی کا ڈنکا بجانے تک کوبھی نہیں چونکتے۔یہاں پر ہم جائزہ لیں گے یاترا نکالنے والوں کے مطالبات کے پیچھے کیاہے۔ جہاں تک رام راج قائم کرنے کی کوشش کی بات ہے تو رام راج دیکھنے کاکوئی طریقہ ہوتا ہے۔
گاندھی کا رام راج سب کا تھا۔وہ رام اور رحیم‘ ایشور او راللہ کو ایک ہی مانتے تھے۔دوسری جانب امبیڈکر او رپریار وہ ذات پات کی روایت کو توڑ کر تپسیا کررہے تھے۔ اڈوانی ‘ بی جے پی او رآر ایس ایس کا رام اقلیتو ں کو ڈرانے والا رام ہے۔کئی مسلمان ملکوں میں ہفتہ کی چھوٹی جمعہ کو دی جاتی ہے اور اسی مناسبت سے مطالبہ کیاجارہا ہے کہ ہندوستان میں اتوار کے بجائے جمعرات کے روز چھٹی کااعلان کیاجائے ۔
ایک طرف تو ہم دنیا کے سب سے معاشی طور پر طاقتور ملک کے زمرے میں کھڑے ہونے کی اہلیت رکھتے ہیں تودوسری جانب ساری دنیا سے نرالی راہ پر چلنے کی بات بھی کررہے ہیں۔ جب ساری دنیا میں اتوار کے روز چھٹی رہتی ہے تب بھارت میں کسی او ردن چھٹی رکھنے سے کیا ہماری بین الاقوامی تجارت اورانٹرنیشنل بازار میں ہماری موجودگی پر بڑی اثر نہیں پڑیگا؟۔جہا ں تک رامائن کو اسکولی نصاب کا حصہ بنانے کی سوال ہے ‘ اس میں بھی آر ایس ایس کی سونچ کارفرما ہے۔
کیایہ ہم بھول سکتے ہیں سنگھ کی طلبہ تنظیم اے بی وی پی نے مشہور مصنف رامانرنجن کی لکھی کتاب’ تھری ہانڈریڈ رامائن‘ نصاب میں شامل کرنے کی مخالفت کی تھی او رنصاف سے اسکو ہٹانے کے بعد ہی خاموشی اختیار کی تھی۔اس کتاب میں بتایاگیا ہے کہ اس بھگوان رام کی کہانی کے کئی مصنفین ہیں اور اس میں تمام مصنفین کے درمیان اختلاف رائے ہے ۔مثال کے طور پر تھائی لینڈ میں سنائی جانے والی رام کہانی ’’ راما کین‘‘ میں ہنومان برہم چاری نے بلکہ گھر گرہستی والے ہیں۔ اسی طرح آندھر ا پردیش میں سنائی جانے والی رام کہانی خواتین کے نقطہ نظر سے لکھی کتا ب ہے۔
والمیکی کی رامائن او رتلسی داس کے رام چرترا مانس میں بھی تضاد ہے۔ سنگھ پریوار رامائن کے ایک اہم ایڈیشن کا حامی ہے۔ ان حالات میں کونسی راما ئن نصاب میں شامل کی جائے۔سچ تو یہ ہے کہ خودکو ہندوؤں کا محافظ بتانے والا سنگھ پریوار ‘ جو مطالبات کررہا ہے ‘ ان کی ہندوؤں کی ضرورت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔آخر رام راج رتھ یاترا یا مندررام مندر سے کون سے سماجی اور معاشی مسئلہ حل ہونے والا ہے؟۔کیااس سے ہندو کسانوں کے مسائل حل ہونگے؟۔کیااس سے ہندو بے روزگاروں کو کام ملے گا؟کیا اس سے ہندؤ خواتین اور بچوں کی صحت یا غذا بہتر ہوگی؟۔
کیااس سے دلتوں پر ہونے والے مظالم میں کمی ائے گی؟۔ کیااس سے خواتین پرہونے والے مظالم میں کمی ائے گی؟۔اس یاترا ایسے وقت نکالی جارہی ہے جب سپریم کورٹ بابری مسجد کی زمین پر حق ملکیت کے متعلق دائر کردہ مقدمہ میں آخری مرحل کی سنوائی کررہا ہے ۔ کیاایسے وقت اس یاترا کو نکالنا عدالت کو چیالنج نہیں ہوگا؟۔ہندو قومی پرستی ‘ سماج کا دھیان اور اس کی تنظیموں کو غلط موڑ پر نہیں لے جارہا ہے۔
وہ سماج کے اونچی طبقے کے احساس کو سکون پہنچانے کاکام کررہے ہیں۔ یوگی ادتیہ ناتھ نے اترپردیش حکومت کے خصوصی بجٹ میں رام مندر کی عالیشان عمار ت کی تعمیر ‘ دیپاولی کے علاوہ ہولی کا تہوار منانے کے لئے بجٹ کا اعلان کیا ہے۔ کیا ایسے پردیش میں جہاں بچے آکسیجن کی کمی کے سبب ہلاک ہورہے ہیں وہاں پر اس کے بجٹ کا اعلان درست ہے۔رام راج رتھ یاترا کا حقیقی مقصد سیاست ہے۔ اگر گاندھی کے رام سے پوچھا جاتا کہ ایودھیا کی متنازع اراضی پر کیابنانا چاہے تو شائد وہ بھی اپنا مندر بناونے کے بجائے اس پر کسی اسپتال یا یونیورسٹی کی تعمیر کی بات کرتے۔