!بہار کی طرز پر تلنگانہ میں مجلس موقع پرستی کی سیاست میں ملوث

ریاستی حکومت کو خوش کرنے کی کوششوں کا سوشیل میڈیا میں مختلف طریقوں سے تذکرہ
صدر مجلس کی جانب سے کے سی آر کی مدح سرائی ، حکومت کی خوشنودی کی قیمت پر مسلمانوں کے مسائل نظر انداز
حیدرآباد۔28جولائی (سیاست نیوز) کے سی آر کی زندگی میں بی جے پی تلنگانہ میں مستحکم ہونے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں کرسکتی ۔ صدر مجلس اسد الدین اویسی کے ٹوئیٹر پر کئے گئے تبصرہ کو سوشل میڈیا پر مختلف طریقوں سے دیکھا جانے لگا ہے وار کہا جا رہا ہے کہ مجلس نے تلنگانہ راشٹر سمیتی کی قیادت کو تسلیم کرلیا ہے اور وہ اب ریاستی حکومت کو خوش کرنے میں مصروف ہے۔ ریاست تلنگانہ میں چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کے زندہ رہنے تک بھارتیہ جنتا پارٹی کی کوششیں کامیاب نہیں ہوں گی کے تبصرہ پر کہا جانے لگا ہے کہ مجلس اب 2004عام انتخابات کے بعد راج شیکھر ریڈی کے ساتھ جس طرح مفاہمت کرچکی تھی اب وہی موقف اختیار کرے گی جس کے نتیجہ میں اسمبلی میں مسلمانوں کے مسائل پر کوئی جارحانہ موقف اختیار نہیں کیا جائے گا مگر ایک گوشہ کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہوگا کیونکہ ریاستی سیاست کے امور قائد مقننہ کے ہاتھ میں ہیں اور قائد مقننہ اسمبلی میں اپنی جارحیت کا سلسلہ جاری رکھیں گے ۔ باوثوق ذرائع سے موصولہ اطلاعات کے مطابق صدر جمہوریہ کے انتخاب کے سلسلہ میں این ڈی اے کے امیدوار کی تلنگانہ راشٹر سمیتی کی جانب سے تائید کے اور مجلس کی جانب سے اپوزیشن امیدوار کی تائید کے فیصلہ کے باوجود اس طرح کے تبصرہ پر کہا جا رہا ہے کہ مجلس کے فیصلہ کے بعد قائد مقننہ کی بیرون ملک روانگی اور رائے دہی میں عدم شرکت کے متعلق کہا جا رہا ہے کہ صدارتی انتخابات میں اپوزیشن امیدوار کی تائید کا فیصلہ قومی سیاست سے متعلق تھا اور قائد مقننہ ریاستی امور کی نگرانی کر رہے ہیں۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ سے صدر مجلس کی والہانہ محبت و وارفتگی کے متعلق یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ ریاستی حکومت سے جماعتی دوستی میں مزید استحکام کیلئے کوشاں ہیں اور ان کی اس کوشش کا مقصد آئندہ انتخابات میں اپنی نشستوں کی بقاء کیلئے اختیار کی جانے والی سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔اب تک مجلس پر یہ الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ مجلس نے بہار‘ اترپردیش اور مہاراشٹر ا میں سیکولر ووٹوں کو منقسم کرنے اور فرقہ پرست ووٹوں کو متحد کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے لیکن مجلس کی جانب سے ان الزامات کی تردید کی جاتی رہی ہے لیکن قومی سیاست و دیگر ریاستوں کے انتخابات میں حصہ لینے کے متعلق کئے گئے فیصلوں سے قائد مقننہ نے کافی حد تک دوری اختیار کر رکھی تھی جیسا کہ ریاست مہاراشٹرا کے انتخابات کے سوا قائد مقننہ نے کسی بھی ریاست میں جہاں مجلس نے انتخابات میں حصہ لیا انتخابی مہم نہیں چلائی خواہ وہ بہار ہو یا پھر اترپردیش کے اسمبلی انتخابات ہوں قائد مقننہ نے انتخابی مہم نہیں چلائی تھی۔ ریاست تلنگانہ چیف منسٹر کی جانب سے حالیہ عرصہ میں کروائے گئے سروے کے دوران اس بات کا انکشاف کیا گیا تھا کہ مجلس کے قبضہ میں موجود 7نشستوں میں ایک نشست کم ہونے والی ہے اسی لئے مجلسی قیادت چیف منسٹر کی خوش آمد پر اتر آئی ہے۔ تلنگانہ کے سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر راج شیکھر ریڈی کے دور میں مجلسی قیادت کی جو صورتحال تھی وہی دور واپس آچکا ہے اور مجلس حکومت کی خوش آمد کے ذریعہ اپنی سیاسی بقاء کی کوشش میں ہے۔ سوشل میڈیا پر کئے جانے والے تبصروں میں کہا جا رہا ہے کہ مجلسی قیادت تحریک تلنگانہ کے دوران صدر تلنگانہ راشٹر سمیتی چندر شیکھر راؤ کو آر ایس ایس کا ایجنٹ اور بھارتیہ جنتا پارٹی کا ہمنوا قرار دیا کرتی تھی اب وہ یہ کہہ رہی ہے کہ کے چندر شیکھر راؤ کی زندگی میں تلنگانہ میں بی جے پی کو استحکام حاصل نہیں ہوگا۔ سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ کرنسی تنسیخ ‘ میڈیکل کالج‘ مقدمات جیسے مسائل کئی سیاسی قائدین کو ملک بھر میں پریشان کئے ہوئے ہیں اورانہیں اندازہ ہے کہ اگر مقدمات چلیں اور اسکامس باہر آنے لگیں تو ان کی حالت بھی پڑوسی ملک کے وزیر اعظم نواز شریف کی طرح ہوگی اور انہیں بھی نااہل قرار دے کر ذلیل و رسوا کیا جائیگا۔