بی جے پی جو کہ ملک کی دوسری بڑی اوراہم سیاسی جماعت ہے اور بہار میں برسراقتدار کے ساتھ جس کا اتحاد ہے کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنی پارٹی کے قائدین اور کارکنو ں کے خلاف کاروائی کرے جو سیاسی پہل کے طور پر دستور ہند کے مغائیر کام کررہے ہیں۔
سال2017میں جب بہار کے چیف منسٹر نتیش کمار نے آر جے ڈی اور کانگریس سے اپنا اتحاد ختم کرکے ناراض دوست کو اپنادوست بنالیا‘ یہ وہ بی جے پی ہے کہ جو نتیش کی حکومت کو شوسسان قراردیتی تھی مگراب بہتر حکومت قراردے رہے ہیں۔
این ڈی ا ے کی زیرقیادت پچھلے پانچ سالوں میں بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ تشدت ریاست کی نظم ونسق پر ایک بڑا سولیہ نشان ہیں جبکہ برسراقتدار سیاسی جماعت کے ساتھی پارٹی سڑکوں پر اترکر سیاسی کلہاری کی دھار تیز کررہی ہے۔
ایک روزنامہ کی جانب سے پیش کردہ اعداد وشمار کے مطابق جولائی 2017میں دوسو سے زائد فرقہ وارانہ واقعات رونما ہوئے جبکہ 2018میں 64واقعات پیش ائے ہیں۔ اعلی معیاری تصوئیریں سوشیل میڈیا پر نفرت پھیلانے کے مقصدسے پھیلائی جارہی ہیں۔
اراریہ میں آرجے ڈی امیدوار کی لوک سبھا ضمنی الیکشن میں کامیابی کے بعد مبینہ طور پر مسلم نوجوانوں کے ’’مخالف ہند‘‘ نعرے لگانے کا ویڈیو جان بوجھ کر بڑے پیمانے پر گشت کرایاگیا۔مسلم علاقوں سے ’’مذہبی جلوس‘‘ نکال کر ہتھیار لہرانے کا واقعہ بھی نفرت پھیلانے کی کوشش کا ایک حصہ مانا جارہا ہے۔
فرقہ وارانہ کشیدگی کی خبریں مونگیر‘ بھاگلپور‘ اورانگ آباد‘ سمتی پور‘ شیخ پورا‘ نواڈا اور نالندہ سے آرہی ہیں۔ بی جے پی لیڈر اور مرکزی وزیر اشونی کمار کے بیٹے ارجیت ششاوت نے کو بھاگلپور ضلع میں پیش ائے واقعہ کے الزام میں عدالتی تحویل میں بھیج دیاگیا ہے‘ مذکورہ واقعہ میں پولیس جوانوں کے بشمول کئی لوگ زخمی ہوئے تھے۔
اپنے مستقبل کے حوالے سے نتیش کمار نے پہلے دومرتبہ کی حکومت میں این ڈے اے کی زیرقیادت رہنے کے باوجود بہتر حکمرانی پرتوجہہ دی تھی ۔ مگر آہستہ آہستہ دونوں کے راستے تبدیل ہورہے ہیں۔ اس سال کا رام نومی جلوس فرقہ وارانہ کشیدگی کا سبب بنا۔نتیش کمار نے جو وعدے او رایجنڈہ انتخابی مہم کے دوران عوام کے سامنے پیش کیاتھا اس کو پورا کرنے میں وہ ناکام رہے ہیں۔
بی جے پی جو کہ ملک کی دوسری بڑی اوراہم سیاسی جماعت ہے اور بہار میں برسراقتدار کے ساتھ جس کا اتحاد ہے کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنی پارٹی کے قائدین اور کارکنو ں کے خلاف کاروائی کرے جو سیاسی پہل کے طور پر دستور ہند کے مغائیر کام کررہے ہیں۔
مذکورہ پارٹیوں کو اس بات کا اندازہ ہونا چاہئے کے اس وقت تک’’سب کاوکاس‘‘ پورا نہیں ہوتا جب تک ’’ سب کاساتھ ‘’ حاصل نہ ہو۔