بھگوا کارکن اب روح افزاء کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کررہے ہیں

نئی دہلی:ہر موسم کا صدابہار شربت روح افزاء کا ایک خصوصی مقام ہے۔ تمام عمر کے لوگ مذکورہ شربت کا شوق کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔

مگر سوشیل میڈیا کے صارفین اس قدیم شربت کو ایک علیحدہ اور فرقہ وارانے رنگ دینے کی کوشش کررہے ہیں۔شدید گرمی میں راحت پہنچانے‘ ہیضہ‘ اور دست وقئے سے بچنے کے لئے استعمال کرتے ہیں مگر اب اس کو ایک مخصوص طبقے سے جوڑنے کاکام کیاجارہا ہے ۔

سوشیل میڈیا پر ’ روح افزا کو بطور مسلمان قراردیاجارہا ہے‘۔ جس طرح کہ پیغامات واٹس ایپ پر جاری کئے جارہے ہیں وہ کچھ اس طرح کے ہیں’’ جون پانچ یعنی پیر کے روز نیراجالا ایکا دشی‘ لوگ بڑے احساس کے ساتھ روح افزا کا استعمال کررہے ہیں۔ ہمدرد کے مسلم مالکین بہت خوش ہیں۔کیو نکہ ایک روز میں روح افزاء ساٹھ کروڑ لوگوں نے پیا یہ جانے بغیر کہ’ہمداد‘ کو کمپنی ہے اس میں ایک بھی غیرمسلم کو ملازم نہیں رکھا گیا ہے۔

یہ لوگ ایک طرف تو ہمارے گائے ماتا کو ذبح کرکے اس کا سرخ خون بہاتے ہیں اور دوسرے جانب یہ ہمیں سرخ کلر کا میٹھا شربت سربراہ کرتے ہوئے فائدہ اٹھارہے ہیں۔ اب وقت ہے ہندو بھائی جاگیں اور تبدیلی لائیں‘‘۔ اس کے جواب میں ایم سی گوتم نامی صارف نے ٹوئٹ کرکے کہاکہ’’ تازہ جوس لیے لو بھیا ہندو ہوتو روح افزاء مسلمان ہے‘‘۔لوگ سوشیل میڈیا کے پس پردہ سیاست مقصد قراردے رہے ہیں۔

https://twitter.com/hindiplz/status/870513407342002179

روح افزاء بازار میں1906سے فروخت کیاجارہا ہے مگر اس کا مذہب جاننے کیلئے 11سال کا وقفہ لگا۔ اب تک اس نفرت کے واقعہ میں بی جے پی کا کوئی

ہاتھ نہیں ہے ۔ہمدرد کمپنی کے متعلق پیغام مبینہ طور پر ہندو دھرم کے ماننے والوں کے جانب سے پھیلایاجارہا ہے جو کہ کمپنی کے ملازمین ہیں جو سوشیل میڈیا پر اس کو وائیرل کررہے ہیں تاکہ اس کا بائیکاٹ ہوسکے۔اس دعوی کے بعد لوگوں کا کہنا ہے کہ غیر مسلم بھی یہاں پر کام کرتے ہیں