متاثرین میں زیادہ تر مسلمان۔ ہنوز راحت کے منتظر
بھوپال ، 3 ڈسمبر (سیاست ڈاٹ کام) بھوپال گیس سانحہ کے متعدد متاثرین نے ملک اور دنیا کے مختلف حصوں سے اپنے حامیوں کے ساتھ آج اس ہلاکت خیز واقعہ کے 31 سال کی تکمیل پر یہاں بند پڑی یونین کاربائیڈ فیکٹری تک مارچ کیا، جو وہی مقام ہے جہاں سے 1984ء میں زہریلی گیس ’میتھائل آئسوسیانیٹ‘ خارج ہوئی تھی جس کے اثر سے ہزاروں افراد موت کی نیند سوگئے اور لاکھوں دیگر کسی نہ کسی طرح جسمانی طور پر مفلوج ہوئے ہیں۔ احتجاجیوں نے اپنے مارچ کا آغاز بھارت ٹاکیز انڈر بریج ایریا سے کیا اور مقامی افراد بھی اُن کے ساتھی بن گئے، جن میں زیادہ تر مسلم لوگ ہیں، جو اس متروکہ فیکٹری کے اطراف و اکناف ڈالے گئے فاضل کیمیائی مادے کی
وجہ سے زیرزمین پانی زہریلا ہوجانے سے متاثر ہوئے ہیں۔ احتجاجیوں نے یونین کاربائیڈ اور اس کمپنی کے موجودہ مالک گروپ ’’ڈوو کیمیکلس‘‘ کی علامتوں پر کیچڑ ڈالا، اور متاثرین کیلئے انصاف و راحت کی فراہمی پر زور دیا نیز خاطیوں کو کیفرکردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا۔ دنیا کی اس بدترین صنعتی تباہی میں کسی طرح زندہ بچ جانے والوں کیلئے سرگرم مختلف غیرسرکاری تنظیموں (این جی اوز) کے سربراہوں نے ریاستی اور مرکزی حکومتوں کو امریکی کمپنی کے مفادات کا تحفظ کرنے کا موردِ الزام ٹھہرایا۔ انھوں نے کہا کہ دونوں حکومتیں متاثرین اور آلودگی کا شکار ہونے والوں کی طبی نگہداشت کے ساتھ ساتھ معاشی اور
ماحولیاتی بازآبادکاری کے تئیں جان بوجھ کر مسلسل غفلت برت رہی ہیں۔ این جی اوز کے مطابق سپریم کورٹ کی کمیٹی برائے طبی نگرانی کی کئی رپورٹس نے اس سانحہ کے متاثرین کی نگہداشت صحت کی زبوں حالی کو فاش کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس کمیٹی کی رپورٹس نے متاثرین کیلئے مختص اسپتالوں میں ماہرین اور قابل ڈاکٹروں کی کمی، معیاری علاج کے طریقوں اور معیاری ادویات کے فقدان، ڈائگناسٹک کے آلات اور صحت پر گہری نگاہ کیلئے درکار سسٹم سے محرومی کو اجاگر کیا ہے۔ صدر ’بھوپال گیس پیڑت مہیلا اسٹیشنری کرمچاری سَنگھ‘ رشیدہ بی نے کہا کہ یہ یقینا باعث شرم ہے کہ مرکزی اور ریاستی حکومتیں مانیٹرنگ کمیٹی کی سفارشات کو بدستور نظرانداز کررہی ہیں۔