مذکورہ ایک رکنی کمیشن اس بات کی بھی جانچ کررہا ہے کہ کن حالات میں سیمی کے کارکن بھوپال سنٹرل جیل سے فرار ہوئے ہیں۔
بھوپال۔ریاست کی سنٹرل جیل سے اکٹوبر2016کو فرار ہونے کے ایک گھنٹہ بعد سیمی کے اٹھ کارکنوں کو پولیس نے انکاونٹر میں ہلاک کردیاتھا جس واقعہ کی حکومت مدھیہ پردیش نے جانچ کیا اعلان کیاتھا‘جس کی رپورٹ منظر عام پر آگئی ہے اور اس رپورٹ میں ’’فرار سیمی کارکن کو روکنے کے لئے طاقت کا استعمال ناگزیر اور ان کی موت کوواجبی قراردیاگیا ہے‘‘۔
سیمی کے مذکورہ اٹھ کارکن ریاست کی سب سے محفوظ ترین جیل میں قید تھے او ران جن پرمختلف جرائم کے پیش نظر سزائے موت یا پھر عمر قید کی سزا کے دوران سنوائی چل رہی تھی۔ یہ لوگ ایک گارڈ کو باندھ کر جبکہ دوسرے گارڈ کا گلہ کاٹ کر جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے۔
ایک چابی سے ان لوگوں نے جیل کے سیل کا قفل کھولا تھا جبکہ جیل میں فراہم کی جانب والی بیڈشیٹس اور لکڑی کے تکڑوں کی سیڑھی بناکر کی جیل کی دیوار پھلانگنے میں کامیاب ہوئے تھے‘ ان تمام باتوں کا ایک رکنی کمیشن کی رپورٹ میں شامل کیا گیاہے جو 17صفحات پر مشتمل ہے اور یہ رپورٹ پیر کے روز ایم پی اسمبلی میں بھی پیش کردی گئی ہے۔
انکاونٹر کے ایک گھنٹہ بعد اکٹوبر 30اور 31سال 2016کی درمیانی شب میں دوویڈیوز وائیرل ہوئے جنھیں دیکھ کر انکاونٹر کے متعلق شکوک شبہات پیدا ہوئے او رسیاسی وبال کا بھی سبب بناتھا۔ وہیں ہوم منسٹر اور سینئر پولیس افیسر اس انکاونٹر کا حقیقی قراردے رہے تھے۔
وہیں حزب اختلاف کی جماعتیں نے الزام لگایا کے مشتبہ لوگوں کو خودسپرد کرنے موقع نہیں دیا گیا اور پھر انہیں زندہ پکڑنے کی بھی کوشش نہیں کی گئی۔ریٹائرڈ ہائی کورڈ جج جسٹس ایس کے پانڈے نے 2016نومبر7کے رو ز حکومت سے پوچھا تھاکہ اس واقعہ کی تحقیقات میں جیل توڑ کر فرار ہونا اور اسی کے ساتھ انکاونٹر جس کے نتیجے میں شوٹ آؤٹ کیا وہ دیگر حوالوں کی مناسبت سے حق بجانب تھا۔
تین ماہ کی توسیع کے بعد رپورٹ ستمبر2017میں داخل کی گئی۔ انکاونٹر کو منظم قراردئے جانے کے الزامات پر عدالتی تحقیقات کا حکم دیا گیا تھا۔ جج کے پیش کی گئی رپورٹ کے حوالے سے کہاکہ’’ متوفی لوگوں کو خودسپردگی کے لئے کہاگیا مگر اس کے بجائے ان لوگوں نے پولیس اور اطراف واکناف کے علاقے کے لوگوں پر فائیرنگ شروع کردی ۔
یہ پولیس کے لئے ضروری ہوگیا تھا کہ قانون سے فراری اختیار کرنے والوں پر کھلی فائیرنگ کرے۔ پولیس کی فائیرنگ کے باوجود بھی ان لوگوں نے خودسپردگی کا کوئی ارادہ ظاہر نہیں کیاجس کے نتیجے میں ‘ گہرے زخم اور موقع پر اموات پیش ائے‘‘۔ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق پولیس کاروائی سی آرپی سی سیکشن41 اور 46(2)کے تحت قانونی ہے۔کمیشن نے جیل سے بھاگنے کے حالات کا بھی جائزہ لیا۔
جب کاروائی کے لئے علیحدہ ٹیم تشکیل دینے کی جانکاری پولیس کو دی گئی ‘ علاقے کا محاصر ہ کرکے ان کے منصوبے کے تحت آگے کی کاروائی کرنے ملزمین کو روکنے کاکام کیاگیا۔گاؤں والوں نے دیکھا کہ وہ اچار پور سے مانی کھیڈی کوٹ پتھر کی طرف جارہے ہیں اور ان کاتعقب کرنے کے بعد پولیس کو جانکاری دی۔
مذکورہ جج نے کہاکہ تین پولیس ملزمین کی گرفتاری کے لئے سرگرم عمل تھے مگر جب انہیں ( سیمی کارکنوں) کو خودسپردگی کے لئے کہاگیا تو انہوں نے پولیس والوں پر فائیر نگ شروع کردی اور تیز دھار ہتھیار سے حملہ کرتے ہوئے انہیں زخمی کرنے کی بھی کوشش کی ۔
ان کی وجوہات کی بناء پر پولیس کو ان کا جوابی فائیرنگ کرنے کی ضرورت پڑے۔ رپورٹ میں اس بات کا ذکر نہیں کیاگیا کہ سیمی کارکنوں کے پاس اتنے مقدار میں ہتھیار کہاں سے آیا یا پھر ان کو باہر سے کسی کی مدد حاصل تھی۔
جیل حکام او رپولیس عہدیداروں کی جانب سے عدالت میں پیش کئے گئے حلف نامہ سے اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ’’جب جیل سپریڈنٹ او ردیگر موقع پر پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ باہر جانے والی دیوار پر ہاتھ سے تیار کی گئی سیڑھی لٹکی ہوئی ہے اور بلاک بی میں چند ن سنگھ کوہاتھ پیر باندھ کر ان کے منھ میں کپڑے ٹھونس ہوا پایاجبکہ بلاک اے میں رام کرشنا مردہ پایاگیا‘‘
جج نے جگہ کا نقشہ اور تصوئیریں دیکھنے کے بعد یہ مانا ہے کہ کم لمبائی کی دیواروں سے ہاتھ سے بنی سیڑھیوں کی مدد سے آسانی کے ساتھ فراری اختیار کی جاسکتی ہے۔
سیمی کے متوفی کارکنو ں کی جانب سے دائر کردہ حلف نامہ کے حوالے سے رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ’’ نہ تو وہ لوگ واقعہ کے گواہ ہیں اور نہ ہی ان کے پاس کوئی ذاتی جانکاری ہے کہ30اور31اکٹوبر کی رات کے درمیان میں جیل کے اندر اور مانی کھیڈی کوٹ پتھر( انکاونٹر کا مقام) پر حقیقت میں کیا واقعہ پیش آیا ہے‘‘۔
عینی شاہد چندن سنگھ کے بیان پر رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ ’’ یہ حقائق بیان کی بنیاد پر ہیں اور قابل بھروسہ بھی ہیں‘‘۔ایڈوکیٹ پرویز عالم جو کچھ متوفی سیمی کارکنوں کی نمائندگی کررہے ہیں کا الزام ہے کہ کمیشن ہیں مانگے گئے دستیاویزات فراہم نہیں کررہاہے۔
انہو ں نے چندن سنگھ کے بیان اور سوال او ر دعوی کیا ہے کہ’’ ہم نے دستاویزات اور وضاحت ہمیں فراہم کرنے کی بات کی ہے۔
ہم اندھیری میں رکھا گیا ہے‘‘۔انہو ں نے یہ بھی کہاکہ اس انکاونٹر کی سی بی ائی تحقیقات کی مانگ کرتے ہوئے ہم سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائیر کریں گے۔ کمیشن نے 14جون2017کو بھوپال جیل اور انکاونٹر کے مقام پر دورہ کیاتھا۔
سیل کا قفل کھولنے سے لے کر ہاتھوں سے تیار کردہ سیڑھی کے استعمال تک پانڈے کے سامنے ایک تمثیلی مظاہرہ بھی پیش کیاگیا۔یکم نوم ریاست کے یوم تاسیس کے موقع پر چیف منسٹر شیوراج سنگھ چوپان نے انکاونٹر میں شامل پولیس عہدیداروں کی برسرعام ستائش کرتے ہوئے ان کے لئے انعامی رقم کا بھی اعلان کیاتھا۔
دہشت گردوں کو ’’انسانیت کا دشمن‘‘ قراردیتے ہوئے انہو ں نے تیزی سے سنوائی پر زوردیاتھا۔انکاونٹر کے متعلق انہو ں نے کہاتھا کہ ’’ وہ لوگ بم بلاسٹ ‘ بینک ڈکیتی اور مخالف دہشت گردی دستے کے کانسٹبلوں کے قتل میں ملوث تھے‘ اگر انہیں ختم نہیں کیاجاتاتو وہ ریاست اور ملک دونوں کے لئے خطرہ بن سکتے تھے‘‘۔
کسی سیاسی جماعت کا نام لئے بغیر انہوں نے دہشت گردوں کی آؤ بھگت کا الزام عائد کرتے ہوئے کہاکہ’’ کب تک انہیں جیل میں رکھیں گے؟ ان سے چندایک کو جیل میں بریانی بھی فراہم کی جاتی ہے‘‘۔