نئی دہلی۔ ایسا بہت ہی کم سیاسی زندگی میں لیڈروں کا اس طرح کے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو فی الحال بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ ورون گاندھی کو حالات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
انہو ں نے باضابطہ اپنے بیان میں کہاہے کہ بی جے پی میں نہ تو ان کا اور نہ ہی ان کا والد ہ کا احترام کیاہے‘ اس کے علاوہ علیحدہ ہونے کی کوئی وجہہ ان کے پاس نہیں ہے ۔
لیکن یہ تو کہنے کی بات ہوئی ۔لیکن پچھلے پانچ سالوں سے ورون گاندھی کے بی جے پی سے علیحدگی کے پچاس بہانے درج کرائے جارہے ہیں ۔ سال2013میں انہیں پارٹی کی تاریخ میں سب سے کم عمر جنرل سکریٹری اور مغربی بنگال کا انچار ج بناگیا تھا۔
لیکن 2014کے عام انتخابات کے بعد ان سے نہ صرف ایک ایک کرکے تمام عہدے چھین لئے گئے بلکہ رکن پارلیمنٹ کی تنخواہ اور حامیوں کی واپسی جیسے اہم موضوعات پر پی ایم او دفتر سے باضابطہ ہدایتیں ارسال کی گئیں کہ وہ اپنی بیان بازیوں سے پارٹی کی مشکلیں نہ بڑھائیں۔
ملک کے سب اول سیاسی خاندان سے تعلق رکھنے والے 40سال کی عمر کے ایک لیڈر صرف سلطان پور کے رکن اسمبلی بن کر خوش رہے ‘ یہ بات بھی کچھ کم تعجب کی نہیں ہے۔لیکن جیسے اشار ے مل رہے ہیں ان کے مطابق بی جے پی کی جانب سے انہیں سلطان پور کی لوک سبھا سیٹ کا ٹکٹ ملنا بھی طئے نہیں ہے۔
اس خدشے کے ایک پہلو کے طور پر سرگرم دانشوار اور جانکارورون گاندھی کے رول سے جوڑ رہے ہیں جس کو لے کر پارٹی کارکن مطمئن نظر آرہے ہیں۔ امیٹھی سے راج خاندان کی وارث اور آسام میں کانگریس کے راجیہ سبھا ممبر سنجے سنگھ کی پتنی امیتا سنگھ نے 20014کے لوک سبھا الیکشن سلطان پور سے ورون گاندھی کے خلاف لڑکر ‘ پھر دوبارہ 2017کے اسمبلی الیکشن میں بی جے پی کی امیدوار گریما سنگھ کے مقابلہ کرکے شکست سے دوچار ہوئی تھیں۔
سلطان پور اس کے آس پاس میں یہ خبر تیزی کے ساتھ گشت کررہی ہے کہ سنجے سنگھ اپنے سیاسی اثر رسوخ کو بچانے کے لئے بی جے پی میں شامل ہوسکتے ہیں۔ اس بات میں بھی سچائی ہے کہ رشتہ داری کے باوجود ورون گاندھی نے سونیا گاندھی‘ راہول گاندھی او رپرینکا گاندھی کے خلاف کبھی کچھ نہیں بولتے تو بی جے پی میں ان کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
وہ دن کبھی کہ جاچکے ہیں جب ان کا نام یوپی کے متوقع چیف منسٹروں میں شامل چار پانچ ناموں میں ان کا بھی شامل رہا کرتاتھا۔ اب اگر وہ رکن پارلیمنٹ کی تنخواہوں کے متعلق بیان دیتے ہیں تو ان کی پارٹی کی ترجمان میناکشی لیکھی اسے گاندھی نہرو خاندان کی بے ہودہ باتیں قراردیتی ہیں
۔ اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ 2014میں پرینکا گاندھی کے دئے گئے ایک بیان کو چھوڑ دیں تو پرینکا او رورون گاندھی کے رشتہ کافی مضبوط او ربہتر رہے ہیں۔ پرینکا گاندھی کے اے ائی سی سی جنرل سکریٹری مقرر کئے جانے کے بعد ورون گاندھی کی کانگریس میں شمولیت کے اثر نمایاں ہوگئے ہیں ۔ مگر ورون گاندھی کے لئے بڑا سوال آنے سے قبل جانے کی وجہہ تلاش کرنے ہوگا