بلی کے گلے میں گھنٹی کیسے باندھی جائے۔ مسلم ووٹوں کو تقسیم سے بچانے کا انڈیا فار ال کا فارمولہ

سبھی لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ ہندوتووادی پارٹیاں صرف مسلمانوں کے ووٹوں کی تقسیم کی وجہہ سے یہاں تک کہ مسلم اکثریتی علاقوں میں بھی جیت رہی ہیں۔ ہر صاحب فکر مسلما اس تقسیم کوروکنے کی بات کرتا ہے مگر کوئی یہ نہیں بتارہا ہے کہ اسے کیسے روکا جائے۔وہ طریقہ یہ ہے۔ ہم کو آپ کو یہ نہیں بتارہے ہیں کہ آپ کس کو ووٹ دیں اس لئے کہ ہم کو ہر حلقہ کے مقامی حالات او رمقامی امیدواروں کے بارے میں کوئی واقفیت ہیں ہے اور نہ ہم کو آپ سے بہتر عقلمندی کا دعوی ہے ۔

لیکن ہم آپ کو فارمولا دے رہے ہیں کہ آپ ووٹ دینے کے لئے امیدوار کا فیصلہ کیسے کریں۔ یہ فارمولا تمام حالات اور تمام انتخابی حلقوں میں انشاء اللہ کارگرد اور اس سے ہندوو ووٹوں کے ردعمل کے طور پر یکجا ہونے کا بھی خطرہ بھی نہیں ہوگا۔پہلے تو ہمیں یہ سمجھنا ہوگاکوئی سکیولر پارٹی نہیں ہے۔ صرف امیدوار سیکولر یا متعصب ہیں۔ اس لئے شائد لالو پرساد یادو کے پارٹی کو چھوڑ کر تقریبا تمام پارٹیوں نے کسی نہ کسی وقت ہندوتوا پاری کے ساتھ اتحاد کیاہے۔ اس لئے پہلے تو ہم کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم ہر حلقہ میں امیدوار کی بنیاد پر ووٹ کریں گے پارٹی کی بنیاد پر نہیں ۔

دوسرا ہم تعصب برتنے والی پارٹی یا اس کے حلیف پارٹی کو امیدوار کو ووٹ نہیں کریں گے۔ تیسرا پتہ کریں کہ اس متعصب یا اس کی حلیف پارٹی کے امیدوار کوچھوڑ کر باقی دوسب سے آگے چلنے والے امیدوار کون ہیں۔چوتھا اور ان دو امیدوار میں سے کم متعصب یا مسلمانں و کے لئے کم نقصان دہ ہے اسے ووٹ کریں گے۔ پانچواں اور اگر کوئی مسلم امیدوار ہے اور وہ نمبر د و یا تین پر نہیں ہے تو ہم اسے بھی ووٹ نہیں دیں گے اور اپنا ووٹ برباد نہیں کریں گے۔اس کے چار فائدے ہوں گے۔

پہلا چونکہ ہم ہر حلقے میں الگ الگ پارٹیوں کے امیدور کو وو ٹ دیں گے اس لئے یہ الزام نہیں لگایاجاسکے گا کہ تمام مسلمان ایک پارٹی کوووڈ دے رہے یں اس لئے تمام ہندو اس کی مخالفت میں ایک مخصوص پارٹی کوووٹ دیں ۔ دوم چونکہ اس فارمولا میں یہ بھی صراحت ہے کہ مسلمان اگر مسلم امیدوار نمبر2یا 3نمبر نہیں ہے تو اسے بھی ووٹ نہ دیں تو یہ الزام بھی صادق نہیں ائے گا کہ مسلمان فرقہ وارانہ بنیاد پر ووٹ دے رہے ہیں۔ سوم جو امیدوار ا
آپ کی تائید سے جیتے ہیں امکان ہے کہ آپ کے لئے زیادہ مددگار ہوں گے اس لئے کہ انہیں احساس ہوگا کہ آپ نے انہیں پارٹی کی وجہہ سے نہیں بلکہ ان کے ذاتی عدم تعصب کی وجہہ سے منتخب کیاہے۔ اور آپ کے زیادہ تر معاملات کو مقامی سطح پر ی حل ہونے کی ضرورت پیش آتی ہے۔

چہارم اور شاید اس وجہہ سے مستقبل میں تمام پارٹیاں امیدوار کا فیصلہ کرتے وقت آپ کی اس ترجیح کا لحاظ رکھیں۔لیکن نمبر دوو اور تین کی تحقیق اور ان میں سے کوٹ کم متعصب ہے اس کا فیصلہ کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔ اس میں ہمیشہ پیسہ لینے یا دوسرے دباؤں کے تحت کام کرنے کے الزام کا احتمال ہے۔ مگر یہ کام اتنا مشکل بھی نہیں ہے ۔ شفافیت ان تمام الزامات کا واحد حل ہے۔ یہ کام دو مرحلوں میں کیاجاسکتا ہے۔

(ایک) اول یہ کے انتخاب سے پہلے حلقے کے اہم او رمعروف مسلمانوں کی ایک نشست کی جائے جن میں سے ہر ایک کو تمام امیدواروں کانام لکھ کر ایک پرچی دی جائے کہ اس میں سے دوہندووتوا یا اس کی حلیف پارٹی کو چھوڑ کر جو امیدوار نمبر دواور یا نمبرتین پر ہیں ان کی نشاندہی کریں۔ اور پھر ان پرچیوں کو گن کر اسی نشست میں اعلان کریں کہ حاضرین کی رائے کے مطابق کو نمبردو اور نمبر تین ہے

۔( دوم) انتخاب کے دویاتین دن پہلے دوبارہ اسی طرح کی نشست کی جائے او رحاضرین کو صرف ان دوناموں کی پرچی دی جائے کہ ان میں سے کس کو وہ کم متعصب اور مسلمانوں کے لئے نقصاندہ خیال کرتے ہیں۔اور پھر ان پرچیوں کو گن کر اسی نشست میں نتیجہ کا اعلان کردیں اور تمام مسلمانوں سے گزارش کریں کہ اسی منتخبہ امیدوار کو ووٹ دیں

۔ ( سوم)اس فیصلے کے بعد براہ کرم اس امیدوار سے ذاتی یامقامی مفاد کے کسی مسئلے پر معاملات یاتیقنات حاصل کرنے کی کوشش نہ کریں اس سے آپ کے فیصلے کے اخلاقی وزن کم ہوجائے گا۔