برمنگھم یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے طالب علم کو کتابوں اور دستاویزات کے انبار میں دستیاب
لندن ۔ 22 جولائی (سیاست ڈاٹ کام) برطانیہ کی برمنگھم یونیورسٹی کی لائبریری سے قرآن مجید کا قدیم ترین نسخہ برآمد ہوا ہے۔ یونیورسٹی کے مطابق ریڈیو کاربن ٹسٹ سے یہ معلوم ہوا ہے کہ یہ نسخہ کم از کم 1370 سال پرانا ہے اور اگر یہ دعویٰ درست ہے تو یہ قدیم ترین قرآنی نسخہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور کے بالکل قریب کا ہے۔قرآن کا یہ نسخہ یونیورسٹی کی لائبریری میں تقریباً ایک صدی سے موجود تھا۔برٹش لائبریری میں ایسے نسخوں کے ماہر ڈاکٹر محمد عیسیٰ کا کہنا ہے کہ یہ بہت ’دلچسپ دریافت‘ ہے اور ’مسلمان بہت خوش‘ ہوں گے۔یہ نسخہ مشرق وسطیٰ کی کتابوں اور دیگر دستاویزات کے ساتھ پایا گیا اور کسی نے اس کی پہچان نہیں کی۔اس نسخے کو ایک پی ایچ ڈی کرنے والے طالب علم نے دیکھا اور پھر فیصلہ کیا گیا کہ اس کا ریڈیو کاربن ٹسٹ کرایا جائے اور اس ٹسٹ کے نتیجے نے سب کو حیران کردیا۔ڈاکٹر البافیڈی نے کہا کہ انہوں نے اپنی پی ایچ ڈی کی تعلیم کے دوران ریسرچ کیا تھا
جس میں ایسے ہی نسخہ کی دو جلدیں دیکھی تھیں۔یونیورسٹی کی ڈائریکٹر سوزن وورل کا کہنا ہے کہ تحقیق دانوں کو اندازہ بھی نہ تھا کہ یہ نسخہ اتنا قدیم ہوگا ۔ انھوں نے کہا کہ ’یہ معلوم ہونا کہ ہمارے پاس قرآن کا دنیا میں قدیم ترین نسخہ موجود ہے بہت خاص ہے۔‘آکسفورڈ یونیورسٹی کے ریڈیو کاربن ایکسلیریٹر یونٹ میں کیے گئے ٹسٹ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ نسخہ بھیڑ یا بکری کی کھال پر لکھا گیا ہے۔ یہ قدیم ترین نسخوں میں سے ایک ہے۔اس ٹسٹ کے مطابق یہ سنہ 568 اور سنہ 645 کے درمیان کا نسخہ ہے۔برمنگھم یونیورسٹی کے عیسائیت اور اسلام کے پروفیسر ڈیوڈ تھامس کا کہنا ہے کہ ’اس تاریخ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلام کی آمد کے چند سال بعد کا نسخہ ہے۔‘ پروفیسر تھامس کا کہنا ہے کہ اس بات کے بھی قوی امکانات ہیں کہ جس نے بھی یہ نسخہ تحریر کیا وہ آپ ؐ کے دور میں موجود تھے اور عین مکن ہیکہ وہ دربارنبوی ؐ میں زیادہ قریب رہے ہوں۔‘پروفیسر تھامس کا کہنا ہے کہ قرآن کو کتاب کی صورت میں 650 میں مکمل کیا گیا۔ان کا کہنا ہے کہ ’یہ کافی اعتماد سے کہا جا سکتا ہے کہ قرآن کا جو حصہ اس چمڑے پر لکھا گیا ہے کہ وہ پیغمبر اسلامؐ کے پردہ فرمانے کے دو دہائیوں کے بعد کا ہے۔
‘’جو نسخہ ملا ہے وہ موجودہ قرآن کے قریب تر ہے جس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ قرآن میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی اور وہ ویسا ہی جیسے کہ نازل ہوا۔‘ اس قرآن کا رسم الخط’حجازی‘ ہے جس طرح عربی پہلے لکھی جاتی تھی۔برٹش لائبریری کے ڈاکٹر محمد عیسیٰ کا کہنا ہے کہ ’خوبصورت اور واضح حجازی رسم الخط میں تحریر نسخے یقینی طور پر پہلے تین خلفائے راشدین کے زمانے کے ہیں یعنی 632 اور 656 کے عرصے کے۔‘ڈاکٹر محمد عیسیٰ کا کہنا ہے کہ تیسرے خلیفہ حضرت عثمان غنی ؓکے زمانے میں قرآن کا حتمی نسخہ منظر عام پر لایا گیا۔’بہرحال اس نسخے کا ملنا اور اس پر خوبصورت حجازی رسم الخط سے مسلمان بہت خوش ہوں گے۔‘یہ نسخہ 3000 سے زیادہ مشرق وسطیٰ کے دستاویزات کے ’منگانا مجموعے‘ کا حصہ ہے جو 1920 کی دہائی میں جدید عراق کے شہر موصل سے پادری الفونسے منگانا لائے تھے۔ان کو چاکلیٹ بنانے والی کمپنی کے ایڈورڈ کیڈبری نے اسپانسر کیا تھا کہ وہ مشرق وسطیٰ جائیں اور دستاویزات اکھٹے کریں۔برمنگھم کی مقامی مسلمان آبادی نے اس نسخے کی دریافت پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔ یونیورسٹی کا کہنا ہے کہ اس نسخے کی نمائش کی جائے گی۔