برطانیہ ریفرنڈم میں یوروپی یونین سے علحدہ ، وزیراعظم کیمرون کی مہم ناکام

بریکسٹ51.9 فیصد ووٹ سے کامیاب۔ دوشنبہ کو کابینی میٹنگ ،کیمرون کی سبکدوشی طئے ہوگی، اکٹوبر تک نیا وزیراعظم متوقع
لندن ۔ 24 جون (سیاست ڈاٹ کام) برطانیہ نے تاریخی ریفرنڈم کے ذریعہ یوروپی یونین (ای یو) چھوڑ دیا، جس کے ساتھ وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون آج عملاً اقتدار پر برقراری کا اخلاقی حق کھو بیٹھے کیونکہ ان کی مہم کو ریفرنڈم میں حیران کن شکست ہوئی ہے۔ اس نتیجہ نے عالمی منڈیوں میں بھونچال پیدا کردیا اور متعدد مسائل پر تازہ مباحث چھیڑ دیئے جیسے ایمگریشن اور سارے یوروپ میں دائیں بازو کی پیشرفت۔ بورس جانسن کو کیمرون کا ممکنہ جانشین بتایا جارہا ہے جو 52 سالہ سابق لندن میئر ہے، جو یوروپی یونین سے علحدگی کی مہم میں پیش پیش رہے۔ وہ کیمرون کے جانشین بننے کیلئے طاقتور دعویدار کے طور پر ابھر آئے ہیں جبکہ دیگر سینئر کنزرویٹیو قائدین جیسے چانسلر جارج آسبرن اور وزیرداخلہ تھریسا مے کو بھی اس دوڑ میں شامل سمجھا  جارہا ہے۔ بریکسٹ کو گذشتہ روز منعقدہ ریفرنڈم میں معمولی اکثریت سے کامیابی حاصل ہوئی، جو برطانیہ کی یوروپ اور دیگر ممالک بشمول ہندوستان کے ساتھ تجارت نیز مارکٹ تک رسائی اور خدمات کے نہج میں بڑے پیمانے پر تبدیلی واقع ہوسکتی ہے۔ نتائج کے سرکاری اعلان کے تھوڑی دیر بعد کیمرون نے جو یوروپی یونین میں برقراری کی مہم کی پرزور تائید کرتے ہوئے جوکھم مول لیا، اپنی سرکاری قیامگاہ 10، ڈاوننگ اسٹریٹ سے باہر آئے اور مستعفی ہوجانے کے اپنے ارادہ کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ نیا وزیراعظم اکٹوبر تک جائزہ لیتے ہوئے 28 قومی بلاک کو چھوڑنے کے عمل کی شروعات کرے گا۔

قطعی نتیجہ جس نے یوروپی یونین کی زائد از چار دہے قدیم برطانوی رکنیت کو ختم کردیا، سرکاری اعلان کے مطابق بریکسٹ کے حق میں 51.9 فیصد ووٹ پڑے اور برقراری کی تائید میں 48.1 فیصد ووٹ ڈالے گئے۔ یوکے الیکٹورل کمیشن کی چیف کاونٹنگ آفیسر جِنی واٹسن نے مانچسٹر ٹاؤن ہال سے یہ اعلان کیا۔ برطانیہ جو یوروپ میں جرمنی کے بعد دوسری بڑی معیشت تھی، اس بلاک کو گرین لینڈ کے بعد چھوڑنے والا دوسرا ملک بنا ہے۔ ریفرنڈم میں حصہ لینے والوں کا تناسب زائد از 30 ملین افراد کا 72.2 فیصد بتایا گیا جو ووٹ دینے آئے۔ یہ 1992 کے بعد یوکے میں اعظم ترین تناسب ہے۔ جملہ 17,410,742 ووٹرس نے یوروپی یونین سے علحدگی کی تائید کی، اس کے برخلاف یہ 16,141,241 نے ای یو کے ساتھ برقراری کو ترجیح دی، جس کے نتیجہ میں بریکسٹ کو 1,269,501 ووٹوں کے فرق سے کامیابی حاصل ہوئی۔

49 سالہ وزیراعظم کیمرون جنہوں نے اپنی 5 سالہ میعاد میں ایک سال سے کچھ زائد عرصہ مکمل کیا ہے، انہوں نے دنیا بھر کے سرمایہ کاروں اور مارکٹس کو اطمینان دلانے کی کوشش کی کہ برطانیہ کی معیشت بنیادی طور پر مضبوط ہے۔ انہوں نے برطانیہ میں یوروپی شہریوں کو بھی یقین دلایا کہ ان کے حالات میں فوری طور پر کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔ کابینہ کی میٹنگ دوشنبہ کو منعقد ہوگی اور کیمرون کی سبکدوشی کے لائحہ عمل کو ترتیب دیا جائے گا۔ کیمرون نے کہا کہ نئے وزیراعظم کو اکٹوبر تک جائزہ لے لینا چاہئے تاکہ یوروپی یونین کو چھوڑنے کے عمل کا باقاعدہ آغاز کیا جاسکے۔ بورس جانسن نے برطانوی شہریوں کی ووٹنگ کے بعد اپنے پہلے بیان میں کہا کہ یوروپی یونین سے علحدگی کیلئے جلدبازی کی کوئی ضرورت نہیں اور دعویٰ کیا کہ فوری طور پر کچھ تبدیل ہونے والا نہیں۔ انہوں نے وزیراعظم کیمرون کو دلاسہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ ان کے مستعفی ہوجانے کی خبر پر افسردہ ہیں لیکن ان کے فیصلہ کا احترام کرتے ہیں۔ جانسن نے دعویٰ کیا کہ یوروپی یونین اپنے دور کا بہت مناسب خیال رہا لیکن یہ اب اس ملک کے لئے موزوں نہیں ہے۔
بریکسٹ کے اثرات اور عالمی ردعمل
l  برطانوی پاونڈ کی قدر1985ء کے بعد اقل ترین
l   عالمی حصص بازاروں میں غیرمعمولی گراوٹ
l  برطانوی فیصلہ کا امریکہ احترام کرتا ہے : اوباما
l  بریکسٹ کیلئے لندن کا حدسے زائد اعتماد ذمہ دار : پوتن
l  جرمن چانسلر مرکل کی دانست میں ریفرنڈم کا نتیجہ ’جھٹکہ‘
l  یوروپی یونین سے پرسکون علحدگی پر آئی ایم ایف کا زور
بریکسٹ پر آئی ایس مسرور ، یوروپ میں حملوں پر زور
دریں اثناء آئی ایس آئی ایس نے یو کے اور ای یو پر برطانوی ریفرنڈم کے نتیجہ میں پڑنے والے معاشی اثر کے تعلق سے اپنی خوشی کا اظہار کیا اور برلن اور برسلز میں حملے کردینے پر زور دیا تاکہ یوروپ کو ’مفلوج ‘ کردیا جائے۔ میڈیا کے گوشہ ’مرر‘ نے سائٹ انٹلی جنس گروپ کے حوالہ سے کہا کہ جہادی تنظیم ای یو ریفرنڈم کے تناظر میں مسرور ہے۔