براری میں ایک ہی خاندان کے گیارہ لوگ انہیں بچانے کے لئے بھگوان کے منتظر تھے اس کے بجائے موت آگئی

نوٹس کی دستیابی گھر میں ’ہون‘ کی طرف اشارہ کررہے ہیں اور جن حالات میں نعشیں ملی ہیں اس سے پولیس کے اس شبہ کو تقویت مل رہی ہے کہ ہوسکتا ہے کہ یہ خاندان کے لوگ مذہبی رسومات کو غلط انداز میں پورے کرنے کے دوران فو ت ہوگئے ہیں۔
نئی دہلی۔ نارتھ دہلی کے براری کے گھر سے اتوار کے روز ایک ہی خاندان کی گیارہ نعشیں برآمدہوئے ہیں‘ اور سمجھا جار ہاہے کہ ان تمام لوگوں نے اس امید کے ساتھ خود کو پھانسی پر چڑھالیاتھا کہ معجزتی طور پر بھگوان ائیں گے اور پھانسی کے دوران انہیں بچا لیں گے۔

اتوار کے روز صبح جب پولیس نے اس کیس کی تحقیقات شروع کی انہیں شبہ ہوا کہ یہ ایک پیکٹ خودکشی معاملہ ہے۔

تاہم تلاش کے دوگھنٹوں تک پولیس خودکشی کے اسباب تلاش کرنے میں ناکام رہی مگر پوجا کے حال سے ملی ایک تحریری نوٹ نے پولیس کے شبہات کو مزید تقویت پہنچادی ہے ۔

فوری بعد پولیس کو دونوٹ بک بھی دستیاب ہوئے۔

جس کے صفحات پر روحانی طریقہ ‘ موکش کے متعلق لکھا ہوا تھا اور کی تاریخیں بھی درج تھیں۔نوٹس کی دستیابی گھر میں ’ہون‘ کی طرف اشارہ کررہے ہیں اور جن حالات میں نعشیں ملی ہیں اس سے پولیس کے اس شبہ کو تقویت مل رہی ہے کہ ہوسکتا ہے کہ یہ خاندان کے لوگ مذہبی رسومات کو غلط انداز میں پورے کرنے کے دوران فو ت ہوگئے ہیں۔

ایک پولیس افیسر نے کہاکہ ’’ عام طور پر ہر اقدام ان نوٹس میں درج ہے جو سمجھا جارہا ہے کہ مذکورہ گھر والے اس پر عمل کرتے تھے‘‘
وہیں ہندی میں’موکش‘ نجات کے استعمال ہونے والے اقدامات بھی تحریرکئے گئے تھے اور ہر ایک کے حساب سے تیر کا نشان بناہوا بھی تھا۔

اس میں اہم بات یہ تھی کہ قواعد کے مطابق گھر والوں کو موبائیل فون کے استعمال سے منع کیاگیا تھا او راس کے علاوہ مذکورہ پوجا کے متعلق کسی دوسرے کو نہیں بتانے کی ہدایت بھی دی گئی تھی۔ پولیس کو گھر سے موبائیل فون حاصل کرنے میں کچھ دیر لگی

۔ پولیس نے موبائیل فون ملنے کے مقام کا خلاصہ کرنے سے انکار کردیا ہے۔ نوٹ کے مطابق یہ پوجا صرف منگل ‘ ہفتہ یا پھر اتوار کے روز پوری کرنی تھی ۔ افیسر نے کہاکہ ’’ گھر والوں نے ہفتہ اوراتوار کی درمیانی شب کاانتخاب کیاتاکہ کوئی الجھن باقی نہ رہے ۔

کیوں پوجاطویل تھی اس لئے ان لوگوں نے رات کا انتخاب کیاتاکہ کسی قسم کا کوئی خلل نہ پڑے‘‘۔افیسر نے کہاکہ ’’نوٹ میں بیواؤں کو علیحدہ طور پر پھانسی لینے کے لئے لکھا ہوا ہے۔

مذکورہ 77سالہ نارائن دیوی کی نعش بازو کے کمرے سے دستیاب ہوئی اور ان کی بیوہ بیٹی کی نعش کھڑکی کی گرل پر لٹکی ملی جو دوسرے گھر والو ں سے الگ ہے‘‘۔ نوٹس میں لکھی ہوئی ہدایت کے مطابق گھر کے مرد بھاویش اور للت آگے او رپیچھے لٹک کر خودکشی کی ۔

اسی طرح گھر ان کی بیویاں ایک دوسرے کے آگے پیچھے لٹک کر پھانسی لے لی اور بچوں کی نعشیں بھی اسی طرح لٹکی ملی جبکہ 33سالہ پرینکا جو کہ ان کی بھانجی ہے کی نعش بھی ساتھ میں لٹکی ملی۔

افیسر نے کہاکہ ’’ پوجا کی ضرورت کے مطابق اس میں حصہ لینے والوں کے ہاتھ او رپیر بندھے ہونے چاہئے‘ اور انکھوں پر پٹی ہواور کانوں میں کاٹن کی روئی رکھنا پڑتا ہے۔صرف ٹینا پر کوئی ضرب نہیں دیکھی کیونکہ یہ سمجھا جارہا ہے کہ اس نے بھی گھر کے باقی لوگوں کے ہاتھ پیر اور آنکھوں پر پٹی باندھی ہوگی اس کے بعد خود بھی ایسا کرتے ہوئے پھانسی لگائی ہوگی‘‘۔

افیسر نے کہاکہ ’’ اس وقت ان لوگوں نے خود کو پھانسی پر لٹکا کر سانس لینے کی کوشش کی ‘ تاکہ وہ بھگوان کوانہیں بچاتا دیکھ سکیں‘‘جو نوٹ میں لکھا ہوا ہے
افیسر کا کہنا ہے کہ مرنے سے کچھ گھنٹوں قتل متوفیوں نے پوجا پاٹ او ر’ہون ‘ بھی کیاہوگاجس کے بازوکے روم میں صاف طور پر نظر آرہے تھے۔

اہم بات یہ ہے کہ گھر والو ں نے پچھلی رات گھر میں پکوان نہیں کیاتھا۔ افیسر نے بتایاکہ’ کچن میں رہنے کوڑے دان سے دستیاب سامان اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ گھر والوں نے باہر سے کھانا منگایاتھا ۔ اور ایسا لگتا ہے کہ وہ اس دوران کچھ منصوبہ سازی کررہے تھے‘‘۔

پڑوسیوں نے بھی اس بات کی توثیق کی ہے کہ گھر والے نہایت مذہبی تھے۔مذکورہ فیملی کے ایک قریبی دوست پروین متل نے کہاکہ ’’ گھر ہر فرد دن میں تین مرتبہ پوجا پاٹ کرتا تھا‘‘۔ سمجھا جارہا ہے کہ تمام نوٹس گھر ایک ہی فرد نے تحریر کئے ہیں۔

پولیس کا کہناہے کہ وہ فارنس کو مذکورہ رپورٹس روانہ کررہی تھا کہ اسبات کی جانچ کی جائے کہ کیس کی تحقیقات کو گمراہ کرنے کے مقصد سے تو یہ نوٹس یہاں پر رکھے تو نہیں گئے ہیں۔پولیس نے کہاکہ قتل کا ایک مقدمہ درج کرنے کے بعد اس کیس کی وہ تمام زاویوں سے جانچ کررہی ہے