مجلس علماء ہند نے وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیراعلی اترپردیش یوگی ادتیہ ناتھ سے مطالبہ کیا‘ مولانا محسن علی تقوی‘ مولانا عابد عباس زیدی‘ مجمع علماء اور طلاب ہند حوزہ علمیہ قم ایران نے سخت مذمت کی
نئی دہلی۔ ہندوستان سے لیکر ایران تک ہندوستانی شیعہ علماء کرام اور طلاب نے شیعہ سنٹرل وقف بورڈ اترپردیش کے چیرمن وسیم رضوی کے خلاف مورچہ کھول دیا ہے اور حکومت ہند اور حکومت اترپردیش سے مطالبہ کیاہے کہ بدعنوانی میں ڈوبے وسیم رضوی کو فوری طور پر عہدے سے برخاست کیا جائے اور جیل بھیجاجائے۔ شیعہ جامع مسجد کشمیری گیٹ کے امام وخطیب مولانا محسن علی تقوی‘ مجلس علماء ہند کے قومی سکریٹری مولانا عابد عباس زیدی‘ مجتمع علماء وخطبا ء ممبئی کے صدر مولانا سید محمد فیاض باقری حسینی کے علاوہ مجمع علماء اور طلاب ہند حوزہ علمیہ قم ایران نے فسیم کی مدرسہ مخالف بیان بازی کی شدید طور پر مذمت کی ہے او رانہیں ابن الوقت قراردیا ہے۔
وزیراعظم اور وزیراعلی کو بھیجے گئے مکتوب میں مجلس علماء ہند نے کہا’’ وسیم رضوی گذشتہ 11سال سے اترپردیش شیعہ وقف بورڈ کے چیرمن ہیں‘ سابقہ سماج وادی پارٹی او ربی ایس پی کی حکومتوں میں بھی یہ چیرمن رہے ہیں۔ ان گیارہ برسوں میں ا ن کے ذریعہ کروڑ وں روپئے کی وقف جائیداد کے خرد برد کے معاملے میں سی سی ائی ڈی کے انہیں مجرم قراردیا ہے او رشیعہ طبقہ ان کے خلاف سی بی ائی سے جانچ کا مطالبہ کرتا رہا ہے لیکن ایس پی او ربی ایس پی حکومت نے ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی بلکہ انہیں پھر سماج وادی پارٹی کی حکومت میں بورڈ کا چیرمن بنادیاگیا۔
جب 2017میں بی جے پی حکومت اترپردیش میں بھاری اکثریت سے بنی تو ایک امید جگی تھی کہ اب بدعنوانی مکت بھارت کا نعرے دینے والی مودی سرکار ہزاروں کروڑ کا گھپلا کرنے والے وسیم رضوی کے خلاف کاروائی کرے گی اور سی بی ائی سے جانچ کرائے گی اور جیل بھیجے گی لیکن افسوس ایسا نہیں ہوا بلکہ بی ایس پی اور ایس پی سے بھی زیادہ اہمیت بی جے پی حکومت میں وسیم رضوی کو دی گئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بے بنیاد بیان دیکر شیعہ طبقہ کو بدنام کررہے ہیں اور ملک کو تقسیم کرنے کاکام کررہے ہیں‘‘۔مکتوب میں کہاگیا ہے کہ ’ ’ وسیم رضوی ایک موقع پر ست انسان ہیں جو ہرحکومت میں اپنا ذاتی مفادحاصل کرنے کے لئے کام کرتے ہیں۔
اس لئے بی جے پی حکومت یہ نہ سمجھے کہ وہ ان کے ہمدرد ہیں‘ ان کے بیان سے حکومت کی بھی بدنامی ہورہی ہے کیونکہ وہ شیعہ وقف بورڈ اترپردیش کے چیرمن ہیں جو کہ ایک سرکاری ادارہ ہے۔ اگر وسیم رضوی کے بیانوں کو پرکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ وہ ہمیشہ اپنے عہدے کے ناجائز استعمال کررہے ہیں‘ اس لئے وسیم رضوی کے خلاف کاروائی کی جائے ‘‘۔
مکتوب میںیہ بھی کہاگیا ہے کہ ’’ مجلس علما ہند ہندوستان شیعہ طبقہ کا نمائندہ ادارہ ہے اور ملک کے 5کروڑ شیعہ آپ سے امید کرتے ہیں کہ جلد اترپردیش شیعہ وقف بورڈ کے چیرمن کو ان کے عہدے سے ہٹایاجائے اور سی بی سی ائی ڈی کی جانچ بنیاد پر انہیں گرفتار کیاجائے نیز پورے شیعہ وقف بورڈ کی سی بی ائی سے جانچ کرائی جائے تاکہ وقف جائیداد کا تحفظ ہوسکے۔ مولانا محسن علی تقوی نے کہاکہ وسیم رضوی کوئی عالم دین نہیں ہیں اور نہ ہی شیعہ قوم کے منتخب نمائندے ہیں لہذا ہم ان کے بیانات سے اظہار بیزاری کرتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ چیرمن منتخب ہونے کے چند مہینوں بعد ہی اس شخص نے اوقار کو خرد برد کرنا شروع کردیاتھا چنانچہ اسی وقت یہ بات ظاہر ہوگئی تھی کہ اس شخص کو کوئی دین دھرم نہیں ہے۔ انہو ں نے کہاکہ وسیم رضوی کے مدارس اسلامیہ کے سلسلہ میں جوکچھ کہاہے کہ وہ انتہائی شرمناک ‘ بیہودہ اور حقائق کے برخلاف ہے۔ انہوں نے کہاکہ مدرسوں کاوجود ہندوستان میں نیا نہیں ہے بلکہ نوسال پرانا ہے نیز مدرسوں نے ہمیشہ محبت ‘ حب الوطنی اور ایثار کا درس دیا ہے۔
انہو ں نے کہاکہ مدارس سے فارغ ہونے والے افاضل نے مختلف میدانوں میں ملک اور ملت کی خدمت کی ہے۔ مولانا حسینی نے بھی وسیم رضوی کے بیان کی مذمت کی ہے او رکہا ہے کہ ان کے بیان سے شیعہ قوم کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ انہو ں نے کہاکہ نماز جمعہ میں اس بیان کی مذمت کی جائے