بجنور تشدد میں ملوث آر ایس ایس لیڈر مفرور

بی جے پی کا انتخابی ٹکٹ حاصل کرنے کیلئے مسلمانوں پر حملہ
بجنور 21 ستمبر (سیاست ڈاٹ کام) ضلع بجنور کے موضع پیدا میں فرقہ وارانہ تصادم میں 3 افراد کی ہلاکت اور متعدد زخمی ہونے کے کئی دنوں بعد بھی ایف آئی آر میں درج 27 میں سے 21 ملزمین ہنوز مفرور ہیں جبکہ انھیں پکڑنے کی کوشش جاری ہے۔ پولیس سپرنٹنڈنٹ اومیش سریواستو نے یہ اطلاع دی۔ تاہم مقامی لوگوں کا الزام ہے کہ پولیس صرف انھیں گرفتار کررہی ہے جوکہ فساد میں راست میں ملوث نہیں تھے لیکن اصل ملزم سنسار سنگھ ہنوز مفرور بتایا گیا ہے۔ ایڈیشنل ڈائرکٹر جنرل پولیس لاء اینڈ آرڈر مسٹر دلجیت چودھری نے بتایا کہ آر ایس ایس کے سرگرم کارکن ایشوریہ چودھری نے اپنے محافظ (گن مین) کے ساتھ ہجوم کی قیادت کی تھی۔ پولیس کو ایک تصویری ثبوت بھی ہاتھ لگا ہے۔ گوکہ وہ مفرور ہے لیکن بہت جلد تلاش کرلیا جائے گا۔ ایشوریہ ایک نوجوان وکیل ہے جو آر ایس ایس سے ملحقہ ادھیوکتا سنگھ سے وابستہ ہے۔ مقامی لوگوں کی اطلاعات کے بموجب ایشوریہ بی جے پی سے بھی وابستہ ہے اور مجوزہ اسمبلی انتخابات کے لئے پارٹی ٹکٹ حاصل کرنے کا خواہشمند ہے جبکہ اس کے والد راجندر سنگھ کو 2014 ء کے لوک سبھا انتخابات کے لئے ابتداء میں ٹکٹ دینے کی تجویز تھی لیکن بعدازاں کنور بھرتندر سنگھ کو ٹکٹ دے دیا گیا۔ پولیس اسٹیشن کے انچارج سرکل آفیسر اسیت سریواستو نے بتایا کہ ایک گرفتار شخص کے پاس پوائنٹ 315 بور ہتھیار کا لائسنس تھا جس نے فائرنگ میں استعمال کیا ہے۔

ایک مقامی شخص شاہنواز نے بتایا کہ جمعہ کی صبح اس کا کزن طالب اپنی بہن کے ساتھ اسکول جارہا تھا کہ گاؤں کے بعض شریر بچوں نے سنار سنگھ کے فرزند کی قیادت میں طالب کی بہن کو ہراساں کرنے معمولی جھگڑا ہوگیا اور طالب مکان واپس آکر اس وقتہ سے اپنے والدین کو واقف کروایا جس کے بعد ارکان خاندان نے سنسار سنگھ کے مکان پہنچ کر احتجاج کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے بحث و تکرار اور دونوں طرف سے سنگباری شروع ہوگئی۔ بعدازاں طالب کے ارکان خاندان مکان آگئے اور چھت پر ناشتہ کررہے تھے کہ قرب و جوار کے دیہاتوں سے آئے ہوئے ایک ہجوم نے سنسار سنگھ کے مکان کے چھت پر چڑھ گئے اور نازیبا فقرے کسنے لگے۔ دوسری طرف سے اندھا دھند فائرنگ شروع کردی گئی جس میں 3 افراد ہلاک اور خاندان کے متعدد ارکان زخمی ہوگئے۔ پولیس سپرنٹنڈنٹ اومیش شرما نے بی جے پی رکن پارلیمنٹ یشونت سنگھ کے اس دعویٰ کو مسترد کردیا کہ جاٹ برادری کی لڑکی کو چھیڑ چھاڑ کرنے پر ردعمل کے طور پر اقلیتی فرقہ کی طالبہ کو ہراساں کیا گیا تھا۔ انھوں نے کہاکہ اشرار کا حملہ منصوبہ بند ہے کیوں کہ فساد میں ایک اکثریتی فرقہ کا شخص زخمی نہیں ہے۔ تمام مہلوکین اور زخمی اقلیتی فرقہ کے ہیں۔ تاہم پولیس نے مذکورہ واقعہ کو فرقہ وارانہ تصادم تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور کہاکہ دو مذہبی گروہوں کے درمیان جھگڑے کا معاملہ ہے۔ دریں اثناء مغربی اترپردیش میں متعین ایک سینئر پولیس عہدیدار نے کہاکہ مستقبل میں اس طرح کے مزید واقعات پیش آسکتے ہیں جس کے باعث سماجی تانے بانے کو نقصان پہنچے گا۔