نئی دہلی۔ حضرت نظام الدین اولیا ؒ کی بارگاہ کو عقیدت مند اور سیاح مغرب کے بعد رات کے وقت ہونے والی سماع اور موسیقی پروگرام کا حصہ بننے کے لئے یہاں پہنچتے ہیں۔مگر اس جمعرات کے روزبارگاہ کی مشہور جمعرات کی قوالی جس میں صوفی سنگیت اور ’ چھاپ تلک سب چینی اور آج رنگ ہے‘ جیسی مقبول قوالیں سیاحوں اور عقیدت مندوں کو سننے کو نہیں ملی۔ جمعرات کے روز صوفی کلام کے بجائے درگاہ انتظامیہ کی جانب سے چونکا دینے والا اعلان کیاگیا ہے کہ اگر نوٹس تک جمعرات کی قوالی کاانعقاد عمل میں نہیں ائے گا۔
ماحول کو مست کردینے والی اس سرگرمی پر روک کی وجہہ کچھ ویب سائیڈوں کی جانب سے سماع میں شرکت کے لئے دوسو روپئے کی ان لائن وصولی بتائی گی جبکہ پچھلے سات سو سالوں سے یہاں پر سماع میں شرکت کرنے والوں سے کوئی فیس وصولی نہیں جاتی ہے۔پچھلے پندرہ سالوں سے سماع میں شرکت کرنے والے مارکٹینگ شعبہ سے وابستہ ایرم خان نے ’’نہایت جذباتی ‘‘ انداز میں کہاکہ ’’ کمیٹی نے محض اس لئے سماع بند کردیا کہ کوئی سماع کے نام پر پیسے وصول رہا ہے‘ یہ فیصلہ دکھی کرنے والا ہے‘‘۔جمعرات کو چھوڑ کر روز مرہ کی طرح قوالی کا اہتمام جاری رہے گا۔
درگاہ کمیٹی رکن التماش نظامی کے مطابق ’’کئی لوگ ایسے ہیں جو بیرونی سیاحوں کو درگاہ میں مفت داخلہ کو یقینی بنانے کا وعدہ کررہے ہیں‘‘۔ ایسے گروپس کے خلاف ایف ائی آر درج کرانے کی بات کرتے ہوئے نظامی نے مزید کہاکہ ’’درگاہ کمیٹی ایسے کسی بھی شخص کو قانونی نوٹس روانہ کرے گا جو لوگوں کو ٹھگنے اور محبو ب الہی کی بارگاہ کو بدنام کرنے کاکام کریگا‘‘۔
درگاہ کے سوشیل میڈیا صفحات پر ایسی ہی نوٹس بھی پوسٹ کی گئی ہے جس میں’’ فرضی گائیڈس اور جھوٹوں سے‘‘ چوکنا رہنے کی اپیل کی گئی ہے۔اچانک صوفی موسیقی کے بند ہوجانے سے کئی عقیدت مندووں کو مایوسی ہوئی ہے ۔ دہلی یونیورسٹی کے ایک طالب علم چارو دیوڈی نے کہاکہ ’’ پچھلی بار میں درگاہ کو جمعرات کے روز آیاتھا ۔ کئی لوگ قطار میں کھڑے ہوئے تھے اور میں نے دل کو سکون پہنچانے والی قوالیاں یہاں پر سنی تھی۔
میری دوسرے مرتبہ یہاں پر آنے کا مقصد ہی فوت ہوگیا‘‘۔ انٹیک دہلی چیاپٹر کی کنویر سواپنا لیڈڈلی نے درگاہ کی صوفی موسیقی کو کمائے کا ذریعہ بنانے والی کی سونچ پر افسوس کا اظہار کیا۔انہوں نے کہاکہ اثار قدیمہ کی عالیشان شاہکار کا مشاہدہ کرنے کے لئے آنے والوں سے پیسوں کی وصولی پھر بھی ٹھیک ہے مگر سماع میں حاضری دینے کے لئے آنے والوں سے پیسے لینے کی بات مایوس کن ہے۔