بابر کے باغ میں امن کی تلاش میں۔ مغل حکمران کا مقبرہ کابل میں ہے

کابل میں جہاں مغل بادشاہ کا مقبرہ ہے‘ بڑا مشکل ہے بالی ووڈ گانوں اور ایک تاریخ کو چھوڑنا۔ اگرچکہ کہ بابر کی ابتدا میں تدفین 1530میں اگرہ میں ہوئی ‘ بالآخر کچھ سالوں بعد انہیں کابل منتقل کردیاگیا۔
کابل۔ کچھ ماہ قبل افغانی نژاد میڈیا کمپنی کے سی ای اواسڑیلیائی باشندہ ساد مہسانی نے کابل میں غروب آفتاب کی ایک تصوئیر ’’ ٹی وی ہل‘‘ کے ساتھ ٹوئٹر پر پوسٹ کی۔کابل کے مغربی حصہ میں کے آسمایہ پہاڑی علاقے کو اس کی اونچائی کی وجہہ سے ٹی وی اور انٹینا کے نام سے پکاراجاتا ہے۔

پچھلے سال میں افغان کی درالحکومت میں تھا او رمہسانی کی تصوئیریں ا س رات میرے ذہن کو کرید رہی تھیں جب میں کابل میں اپنی راتیں گذاررہاتھا۔ لہذا میں نے بھی اپنے روم سے کھینچے ٹی وی ہل کی ایک تصوئیر شیئر کی۔

دونوں میں صرف اتنا ہی فرق تھا کہ میری تصوئیرٹی وی ہل کی برف میں ڈھکی پہاڑیو ں اور اونچائی سے لی گئی تھی اور ان کی تصوئیر بہتر انداز میں فریم کی ہوئی بناء برف کے تھی۔

فون گیلری میں گردش کے دوران میں بے چین تھا ایک اور تصوئیرشیئر کروں ۔

یہ کابل کے نقطہ نظر سے باغ بابر میں ایک کھلی کھڑکی کے طور پر تھی۔

بارش کے لئے بے چین بادل جو برف سے لبریز پہاڑوں پر گرنے کے بے تاب نظر آرہے تھے۔ اس کی وجہہ سے ایسا لگ رہاتھا کہ پورے شہر سفید پوشاک میں لپٹا ہوا ہے‘ اور کچھ آسمان چھوتی عمارتیں ۔

ایک دلچسپ منظر پیش کررہے تھے۔ کھڑکی کے اس جانب باب بابر تھا۔کابل میں جہاں مغل بادشاہ کا مقبرہ ہے‘ بڑا مشکل ہے بالی ووڈ گانوں اور ایک تاریخ کو چھوڑنا۔ اگرچکہ کہ بابر کی ابتدا میں تدفین 1530میں اگرہ میں ہوئی ‘ بالآخر کچھ سالوں بعد انہیں کابل منتقل کردیاگیا

۔پہلے مغل بادشاہ تھے جنھو ں نے خوش ظاہر کی تھی کہ انہیں کابل کے کھلے آسمانوں کے نیچے دفن کیاجائے‘‘

میں نے کہاتھاباغ بابر کو دیکھے بغیر کابل کا دورہ نامکمل رہے گا۔میں بہت زیادہ ’باغ والوں‘شخص نہیں ہوں‘ لیکن جب مڑ کے دیکھا تو میں نے اس کو چھوڑ کر بہت بڑی غلطی کی تھی۔ برابر نے اپنے آخر ی آرام گاہ کے متعلق جو وسعت کی تھی وہ درست تھی۔

لہذا میں ایک اسپینی‘ نیوزی لینڈ کے اور ایک افغانی کے ساتھ گیا۔ کابل کے قدیم شہر میں کوہ شیر دروازہ میں یہ پیغام قائم کیاگیا ہے۔ اس پر پندرہ فٹ کا چھت ہے۔ اس کے اطراف واکناف میں اونچی خوبصورت دیواریں ہیں اور باغ میں داخل ہونے کے لئے ایک کاروان سرائی سے گذر کر جانا پڑتا ہے۔

اب وہاں پر ہیڈکرافٹ کی دوکانیں ہیں اور بہت ساری سکیورٹی بھی ہے۔ مذکورہ باغ کاروا ن سرائے کے صحن سے منسلک ہے۔