چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی قیادت والی پانچ رکنی دستوری بنچ سماعت کریگی ۔ اصل مسئلہ کے ساتھ دیگر امور پر بھی غور کا امکان
نئی دہلی 25 فبروری ( سیاست ڈاٹ کام )سپریم کورٹ میں سیاسی طور پر حساس بابری مسجد۔ رام جنم بھومی اراضی تنازعہ کے مقدمہ کی کل منگل کو سماعت ہونے والی ہے ۔ اس مقدمہ کی چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی قیادت والی پانچ رکنی دستوری بنچ سماعت کریگی ۔ اس بنچ میں جسٹس ایس اے بوبڈے ‘ جسٹس ڈی وائی چندرا چوڑ ‘ جسٹس اشوک بھوشن اور جسٹس ایس عبدالنظیر شامل ہیں۔ سپریم کورٹ میں اس مسئلہ کی سماعت 27 جنوری کو ہونے والی تھی تاہم اس دن جسٹس بوبڈے کی عدم دستیابی کی وجہ سے اس کی سماعت ملتوی کردی گئی تھی ۔ 2010 کے الہ آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں جملہ 14 اپیلیں دائر کی گئی ہیں ۔ الہ آباد ہائیکورٹ نے 2.77 ایکڑ اراضی کو تین فریقین سنی وقف بورڈ ‘ نرموہی اکھاڑہ اور رام لالہ کے مابین مساوی تقسیم کردیا تھا ۔ پانچ ججس والی بنچ کی تشکیل 25 جنوری کو عمل میں آئی تھی کیونکہ جسٹس یو یو للت نے جو سابقہ بنچ کے ایک رکن تھے خود کو اس مقدمہ کی سماعت سے الگ کرلیا تھا ۔ جب نئی بنچ تشکیل دی گئی اس وقت جسٹس این وی رمنا کو اس سے علیحدہ کردیا گیا ۔ جسٹس بھوشن اور جسٹس نظیر کو نئی تشکیل شدہ بنچ میں شامل کیا گیا ہے جبکہ وہ سابق کی بنچ میں بھی شامل تھے جس کے سربراہ اس وقت کے چیف جسٹس دیپک مصرا تھے جو اب سبکدوش ہوچکے ہیں۔ 27 ستمبر 2018 کو ایک سہ رکنی بنچ نے سپریم کورٹ کے 1994 میں دئے گئے فیصلے پر نظر ثانی کرنے سے انکار کردیا تھا جس میں یہ کہا گیا تھا کہ مسجد اسلام کا لازمی حصہ نہیں ہے ۔ اس وقت کے چیف جسٹس دیپک مصرا اور جسٹس بھوشن نے کہا تھا کہ اس مسئلہ پر اس تناظر کو سمجھنے کی ضرورت ہے جس کے پیش نظر پانچ رکنی بنچ نے 1994 میں فیصلہ سنایا تھا ۔ جسٹس نظیر نے اس وقت اقلیتی فیصلہ دیا تھا اور انہوں نے دو ججس کی رائے سے اتفاق نہیں کیا تھا ۔ جسٹس نظیر کا کہنا تھا کہ مسجد کے اسلام کیلئے لازمی ہونے کے تعلق سے فیصلہ کرنے کیلئے مذہبی عقیدہ کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور اس کا تفصیلی جائزہ لیا جانا چاہئے ۔ 10 جنوری کو جسٹس للت نے خود کو اس مقدمہ کی سماعت سے الگ کرلیا تھا اور کہا تھا کہ وہ 1997 میں سابق چیف منسٹر اترپردیش کلیان سنگھ کی بحیثیت وکیل پیروی کیلئے عدالت گئے تھے ۔ کل سماعت کے دوران سپریم کورٹ اصل مسئلہ کے علاوہ علیحدہ درخواستوں میں اٹھائے گئے دوسرے معاملات کی بھی سماعت کریگی ۔ مرکزی حکومت نے 29 جنوری کو عدالت سے رجوع ہوتے ہوئے کہا تھا کہ 67 ایکڑ کی جو غیر متنازعہ اراضی ہے اسے اس کے حقیقی مالکین کے سپرد کردیا جانای چاہئے ۔ حکومت نے واضح کیا تھا کہ 0.313 ایکڑ اراضی پر شہادت سے قبل بابری مسجد قائم تھی اور یہ قطعہ اراضی متنازعہ 2.77 ایکڑ اراضی میں شامل ہے ۔ حکومت نے ایودھیا میں جملہ 67.703 ایکڑ اراضی اپنے تفویض حاصل کرلی تھی اور اس میں کہا جا رہا ہے کہ 42 ایکڑ اراضی رام جنم بھومی نیاس کی ملکیت ہے ۔ مرکز نے کہا تھا کہ رام جنم بھومی نیاس نے بھی یہ زمین واپس طلب کی ہے ۔ حکومت نے ایک قانون سازی کے ذریعہ یہ اراضی حاصل کی تھی ۔ کل منگل کو اس مسئلہ کی سپریم کورٹ میں سماعت ہوگی۔