ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے بیان پر و ضاحت دی
نئی دہلی : دہلی اقلیتی کمیشن کے سر براہ اور آل انڈیا مسلم مشاورت کے سابق صدر ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے عدالت سے باہر تصفیہ کے حق میں ہونے اور آر ایس ایس سے مداخلت کی گذارش کر کے تنازع میں گھرنے کے بعد آج انہوں نے وضاحت پیش کی ۔
جس میں انہوں نے کہا کہ ’ میرے ذریعے دئے گئے بیان کو غلط طریقہ سے پیش کیا گیاہے۔عدالت کے باہر تصفیہ کی تائید کرتے ہوئے میں نے پہلے سپریم کورٹ پھر مرکز ی حکومت اور پھر تیسرے نمبر پر آر ایس یس کو رکھا تھاجس کے ذریعہ عدالت کے با ہر کوئی تصفیہ ممکن ہو سکتا ہے کیوں کہ ان تینوں کے پاس قوت نافذہ ہے۔
انہوں نے ایک بیان جاری کریتے ہوئے کہا کہ ’’ آر ایس ایس کو میں نے تیسرے نمبر پررکھا تھا کیو ں کہ رام مندر کے نام پر سیاست او ر دنگا کرنے والی تنظیموں پر اس کا مکمل کنٹرول ہے۔
سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس ،جسٹس کھیھر نے خود مارچ ۲۰۱۷ء میں اس تنازع کو عدالت کے باہر حل کرنے کے لئے ثالثی کی پیشکش کی تھی ۔میں نے مزید کہا تھا کہ مذکورہ بالا تین اتھاریٹیز کے پاس قوت نافذہ ہے جب کہ شری شری کے پا س کوئی قوت نافذمہ نہیں ہے او ر کچھ ہندو تنظیموں نے ا س مسئلہ میں ان کی دخل اندازی پر اعتراض کیا تھا ۔
اس سلسلہ میں دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ عدالت کا حتمی فیصلہ ایک فریق کے حق میں اور دوسرے فریق کے خلاف ہوگا۔جس کی وجہ سے تنازع مستقبل میں بھی جاری رہے گا۔
اور مسلمانوں کی جان و مال کو بھی نشانہ بنایا جائے گا۔اس کے بر عکس فریقین کے درمیان با ہم رضامندی سے آنے والا تصفیہ دونوں کو مطمئن کرے گا۔او رمسئلہ ہمیشہ کیلئے ختم ہوگا۔میں یہ کبھی نہیں کہاتھا کہ موجودہ عدالت کا مقدمہ روک دیا جانا چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ عدالت کے باہر تصفیہ کی کوشش کے ساتھ ساتھ عدالت کی کارروائی بھی چلتی رہے اور اگر کوئی قابل اطمینان حل مل جاتا ہے توفریقین عدالت کو مطلع کر کے اسے خارج کرنے کی درخواست دیں گے۔