نئی دہلی۔سماجی کارکن اور ڈکیومنٹری فلم میکر روچیرا گپتا جو بابری مسجد کو شہید کرتے وقت ایودھیا میں موجود تھی نے مسجد کی عمارت کو گرانے کے لئے کس طرح لوگوں کو آکسانے کاکام کیاجارہا تھا اس کے متعلق اس ویڈیو میں خلاصہ کیاہے۔
روچیرا نے کہاکہ ایل کے اڈوانی تحریک کی قیادت کررہے تھے اور دوسرے لیڈر جیسے مرلی منوہر جوشی‘ اوما بھارتی‘ پرومود مہاجن‘ اور سادھوی رتمبرا بھی وہاں پر نفرت پر مبنی بیانات دیتے ہوئے کھڑے تھے۔ سادھوی رتمبرا نے یہ کہاکہ ’’ مردانگی واپس لو‘ چوڑیاں اتارو اور مسجد توڑو‘‘۔
اوما بھارتی نے کہہ رہی تھی کہ ’’ ایک دھکہ اور دو مسجد توڑدو‘‘
https://www.youtube.com/watch?v=6x123ST4GoU
شریمتی گپتا جو مسجد کی شہادت کی عینی شاہد تھی نے کہاکہ لبراہن کمیشن نے اسکو منصوبہ بند قراردیاتھا اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈرس اس انہدام پر ’فخر ‘ محسوس کررہے تھے اور ساتھ میں ایل کے اڈوانی اس کو ’تاریخی‘ قراردے رہے تھے۔کمیشن سے سوچیرا نے یہ کہاکہ جب اڈوانی نے دیکھا کہ کچھ کارسیوک مسجد کی گنبد پر چڑ گئے ہیں تو انہو ں نے کہاکہ ’’ ان کو اوپر نہیں چڑھنا چاہئے ‘ ڈھانچہ تو گرنے والا ہے۔
ان کو چوٹ لگ سکتی ہے۔ ممبئی سے کچھ لوگ ائے ہیں جن کا وقت مقرر ہے مسجد کوگرانے کا ‘‘۔ جیسے ہی پہلی گنبد کو شہید کردیاگیا تو بھارتی نے بی جے پی کے سینئر لیڈر اور واقعہ کے اصل سرغنہ سے گلے ملے ‘ وجئے راجئے سندھیا ’’ خوشی سے رو رہے تھے‘‘۔ سادھو رتمبرا نے اڈوانی سے کہاکہ ’’ سرکار تو گرنے والی ہے تو سسرا مسجد کو کیوں بچائیں‘‘۔ قریب میں کھڑے سندھیا نے اس بات پر حامی بھری اور کہاکہ ’’ ہاں تم صحیح کہتے ہو‘‘۔
پہلے گنبد گرنے کے بعد روچیرا نے یہ کہاکہ ’’ میں نے وسط کے دروازے سے اندر جانے کا ارادہ کیا۔ میں جینس اور شرٹ پہنی ہوئی تھی اور ایک گیلی دستی سر پر ڈال پر اندر جانے لگی۔ گنبد پر بہت بھیڑتھی۔ وہ نعرے لگارہے تھے ‘ ہاتھوں اور سروں پر بھگوا بینڈ باندھے ہوئے تھے ۔ وہ لوگ بے قابو ہوگئے تھے‘‘۔ جب میں اندر گئے ان لوگوں کے بیچ سے اصل مقام پر جانے کی کوشش کی۔ مذکورہ بی جے پی کارکنوں نے مجھ سے کہاکہ وہاں پر ’’ گربھا گروہا ‘‘ اور نومولود رام کا ایک مجسمہ متنازع مقام پر ہے ۔
یقیناًجو لوگ میرے اطراف میں تھے میں ان کی طرح نہیں دیکھائی دے رہی تھی اور میں واحد عورت تھی جو جینس اور شرٹ پہنے ہوئے تھی ’ لہذا جب میں نے ان لوگوں کو دھکیل کے اندر جانے کی کوشش کی تو وہ لوگ غیرمطمئن دیکھائی دے رہے تھے۔ان میں سے ایک شخص نے کہاکہ ’’ یہ مسلمانوں ہی ہوگی‘ اچانک سب نے کہنا شروع کردیا مسلم !مسلم! اور میرے طرف ہاتھ بڑھانے لگے۔اس لمحے کو یاد کرتے ہوئے سوچیرا نے کہاکہ ’’ میں ہلاکت کے قریب پہنچ گئی تھی جیسا ہی ان لوگوں نے چلانے شروع کیا ‘ میں کون ہوں یہ بتانے کے لئے بھی میرے منھ سے الفاظ نہیں نکل رہے تھے ‘ میرا حلق سوکھ گیا تھا۔ کوئی میرے سینے پر ہاتھ پھیرتا‘ کوئی میرے کمر کو دباتا ‘ وہ میرے جسم کے ہر حصہ کو چھونے کی کوشش کرنے لگے۔
ایک نے کہاکہ اس کو اندر نہیں ماریں گے ‘ اب وہ اورزیادہ حوسی ہوگئے تھے ان لوگوں نے مجھے مسجد کے باہر لایا۔جب وہ لو گ مجھ پر حملہ کرنے کی کوشش کررہے تھے پھر ‘ میرا شرٹ باہر آگیا۔ اچانک ایک شخص جس کاتعلق بہار سے ہے اور ایک روز قبل ہی میں نے اس کا انٹریو کیاتھا مجھے بچانے کے لئے آگے آیا۔ اس نے کہاکہ نہیں ’ یہ صحافی ہے ‘ یہ بہار سے ہے۔ میں اس کو جانتا ہوں ۔ یہ میرے پڑوسی گاؤں کی ہے اور یہ ہندو ہے۔
ان لوگوں نے اس شخص کے سر پر مارا جس کی وجہہ سے اس سے سر سے خون رس رہا تھا ‘ اس کا پیر ٹوٹ گیا‘ مگر اس نے مجھے بچایا۔گپتا نے کہاکہ وہ سیدھے لال کرشنا اڈوانی کے پاس گئے جو بی جے پی کے دیگر لیڈرس کے ساتھ ایک گھر کی چھت پر کھڑے تھے جہاں سے وہ باہر جاری سرگرمی کا اچھی طرح نظارہ کرسکتے تھے۔میں ان کے پاس گئے اور کہاکہ ’اڈوانی جی‘ کیاآپ لوگوں کومائیک پر بول سکتے ہیں کہ صحافیوں پر حملہ نہ کریں ‘ عورتوں پر حملہ نہ کریں‘ میں نے ان سے کہاکہ میرے ساتھ جنسی بدسلوکی ہوئی ہے۔ انہو ں نے کہاکہ ’ بھول جاؤتمہارے ساتھ کیاہوا ہے۔
یہ حقیقت میں ایک تاریخی دن ہے جشن مناؤ ۔ یہاں پر کچھ میٹھائی کھاؤ‘‘۔ بالآخر گپتا کی مدد ایک خاتون کانسٹبل نے کی اور انہیں بچاکر وہا ں سے نکالا ’’ میں کار میں سوار ہوکر سیدھے دہلی کی طرف روانہ ہوگئی‘ مگر میں نے بہاری ٹریبونل‘ دی لبراہن کمیشن آف انکوائری اور دی پریس کونسل کو گواہی دینے کا ارادہ کرلیا۔ مجھ پر بجرنگ دل ‘ وشوا ہندو پریشد اور بی جے ی کی وکلاء کے حملوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ ان لوگوں نے جو مجھ سے سوال کئے تھے وہ ’تمہارے اوپر زخم کے نشان کہاں ہیں‘ تم یہ شہرت کے لئے کررہی ہوں‘ کیا تم ٹی وی سیریل میں کام کرتی ہو‘ کیاتم سگریٹ پیتی ہو؟تم نے کہاکہ تمہارا شرٹ باہر آگیاتھا ایسی حالت میں ایک اچھے خاندان کی لڑکی ہونے کے باوجود نے اڈوانی جیسے بڑے لیڈر کے پاس ایسی حالت میں چلے گئی؟‘‘۔گپتا نے کہاکہ ’’ میں نے ان سے کہا کہ شرم مجھے نہیں تم لوگوں کو آنی چاہئے کیونکہ تم لوگ بلاوائی ہو اور وہ بلاوائیو ں کے لیڈرس تھے‘‘۔
یہیں پر بات ختم نہیں ہوئی ان لوگوں نے روچیر ا کے خلاف افواہیں پھیلانے شروع کردئے جس کے بعد لوگ دہلی میں اس کا جینا ماحول کردیاتھا ۔ لوگ سوال پوچھتے تھے کہ ’’ تمہارے بہت سارے بوائے فرینڈ ہیں؟ تم مردوں کے ساتھ کھلے عام رہتی ہو‘ تمہیں شرت سے بہت دلچسپی ہے وغیرہ وغیرہ؟گپتا نے کہاکہ ’’ ان لوگوں نے انسانی اقدار پر میری شبہہ کو متاثر کرنے کی کوشش کی۔ جب وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے تو ان لوگوں نے میراتعقب شروع کردیا‘ میرے اندر خوف پیدا کرنے کی کوشش کی‘ ان لوگوں نے میرے کار توڑ دی اور میرے ساتھ نازیبا الفاظ کااستعمال کیا۔ وہ لوگ میرا تعقب دہلی کے کاناٹ پیلس کے ایک آفس سے دوسرے افس تعقب کرتے رہے‘ میرے گھر کے باہر کھڑے رہتے او رمجھے فون کال کرکے لمبی آہینیں بھرتے‘ میں خاموش رہی میں نے کوئی جواب نہیں دیا اور ایک بار میں جواب دیتی تو میرا ڈر ان کے سامنے ظاہر ہوجاتا جو ان کے حوصلوں کو تقویت پہنچاتا۔