بابری مسجد ملکیت کا معاملہ

عدالت کے باہر مفاہمت کے نام پر آر ایس ایس کا شرائط نامہ
لکھنؤ: بابری مسجد کا مقدمہ خواہ سپریم کورٹ کے زیر سماعت کیوں نہ ہو مگر وقتاً فوقتاً ا س معاملہ کے حل کے لئے کسی نہ کسی گوشہ سے نیا فار مولہ آتاہے۔آج ایک نیا فار مولہ آیا ہے جسے ایک سینئر لیڈر اندریش کمار نے پیش کیا ہے

۔یہ ایک پانچ نکاتی فارمولہ ہے ۔۱۔ایودھیا میں صرف رام مندر بنے گاکوئی مسجد نہیں۔وہاں کبھی بابری مسجد تھی ہی نہیں ۔اور اگر اس کی تعمیر کی گئی تھی تو وہ ایک مندر کو منہدم کر کے تعمیر کی گئی جو کہ ایک جرم ہے۔۲۔ مسلمانو ں کو اگر مسجد چاہئے تو یہ ایودھیا اور فیض آباد کے باہر تعمیر کی جاسکتی ہے۔۳۔ ہندوستان میں اب بابر کے نام پر عبادت گاہ نہیں بن سکتی۔اگر مسلمان عبادت گاہ بناتے ہیں تو وہ خدا کے نام پر بن سکتی ہے۔۴۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کو مل کر رام مندر بنا نی چاہئے۔۵۔ اگر مسلمان مسجد چاہتے ہیں تو یہ امن و بھائی چارہ کی مسجد ہونی چاہئے۔یہ اعتراف کرتے ہوئے بھی کہ یہ معاملہ عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت ہے۔انھوں نے کہا کہ حتمی فیصلہ تو وہیں سے ہو نا ہے۔

تاہم وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ مسلمانوں نے یہ حلف نامہ بھی دیا ہے کہ اگر کھدائی میں مسجد کے آثار نہیں ملے تو مقدمہ واپس لیا جائے گا۔انھوں نے کہا کہ کے کے محمد کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ ان کی رپورٹ میں صاف طور پر لکھا ہوا ہے کہ یہاں کوئی مسجد کے آثار نہیں ملے ہیں اس لئے مسلمانوں کو ا س کے عویدار سے دستبردار ہو جا نا چا ہئے۔اس زمین پر مسلم فریقین کے حق پر انھوں نے کہا کہ غلط دستاویزات پر یہ دعوی کیا جارہا ہے جو کہ ایک جرم ہے۔ا سکے لئے ان پر مقدمہ چلایا جاناچاہئے۔اندریش نے مسلم پرسنل لاء بورڈ کے بارے میں کہا کہ یہ بورڈ کوئی اسلامی تنظیم نہیں ہے۔

کیوں کہ کسی اور کسی بھی مسلم ملک میں اس قسم کی کوئی تنظیم نہیں ہے۔انھوں نے کہا کہ مسلم بورڈ اسلام اور مسلمانوں کے لئے ایک بھی فائدہ کا کام نہیں کیا ۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن مولانا خالد فرنگی نے اندریش کے اس بیان پھر کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کا انتظار کیوں آر ایس ایس اور دیگر تنظیمیں نہیں کرتیں؟انھوں نے فرضی دستاویزات کے تعلق سے ان کے بیان پر کہا کہ وہ کس حیثیت سے اور کس بنیاد پر یہ بات کرر ہے ہیں۔

اگر دستاویزات فرضی ہو تے ہیں تو الہ آباد ہائی کورٹ متنازع اراضی کا تیسرا حصہ مسلمانوں کو کیوں دیتا؟انھوں نے مزید کہا کہ بورڈ جس مقصد کے حصول کے لئے بنایا گیا ہے وہ ان پر کھرا اترا ہے۔اس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جہاں اس کا جلسہ ہوتا ہے وہا ں لاکھوں کی تعداد میں لوگ پہنچ جاتے ہیں ۔اندریش کمار آر ایس ایس کے مسلم ونگ کے انچارج ہے۔مسلمانوں کے تعلق سے ا س تنظیم کی پالیسی میں ان کا کلیدی رول رہتا ہے۔