بابری مسجد مقدمہ 31مداخلت کاروں کی عرضی خارج

جمعیتہ علماء سمیت ودیگرفریقین ہی عدالت میں اپنی بات رکھ سکی گے۔ اگلی سماعت 23مارچ کومقرر
نئی دہلی۔ بابری مسجد ۔ رام مندر ملیت معاملے کی سماعت آج ایک مرتبہ پھر سپریم کورٹ آف انڈیا کی تین رکنی بنچ کے سامنے شروع ہوئی‘ جس کے دوران سبرامنیم سوامی کو زبردست جھٹکا لگا‘ جب عدالت نے اسے اس معاملہ میں کسی بھی طرح کی مداخلت کرنے سے روک دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ان دیگر 31مداخلت کاروں کو بھی فی الحال اس معاملے میں کچھ بھی کہنے کی اجازت نہیں ہوگی۔

جیسے ہی عدالت کی کاروائی شروع ہوئی‘ اس معاملے کے ایک اہم فریق جمعیت علماء ہند کے وکیل نے عدالت سے گذارش کی کہ وہ سب سے پہلے ان لوگو ں پر عدالت میں داخل ہونے پر پابندی عائد کرے‘ جنہیں ابھی تک اس معاملے میں بطور فریق تسلیم نہیں کیاگیاہے۔ جمعیت علماء ہند کے وکیل کا اشارہ ڈاکٹر سبرامنیم سوامی اور دیگر مداخلت کاروں کی طرف تھا۔

جمعیت علماء ہند کے وکیل اعجاز مقبول نے چیف جسٹس آف انڈیا دیپک مشرا کی سربراہی والی سہ رکنی بنچ کو بتایا کہ اس سے قبل سماعت پر عدالت یہ واضح کرچکی ہے کہ وہ اس معاملے میں مداخلت کاروں کی عرضداشتوں پر فریقین کے دلائل کی سماعت کے بععد کوئی فیصلے کرے گی‘ اس کے باوجود مداخلت کار عدات میں گھس کر عدالتی کام کاج میں رخنہ اندازی کررہے ہیں ‘ جس کے بعد سہ رکنی بنچ نے باقاعدہ آرڈرپاس کرتے ہوئے تمام مداخلت کاروں کی درخواستوں کو فی الحال ٹھنڈے بستہ میں ڈال دیا ‘

جس کے بعد سبرامنیم سوامی نے عدالت کو بتایا ک اس معاملے کی سماعت اسی کی عرضداشت پر شروع ہوئی ہے اور آج اسے عدالت سے باہر کردیاجارہا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ ان کی عرضداشت پر الگ سے سماعت ہوگی۔ ایڈوکیٹ اعجاز مقبول کی درخواست پر چیف جسٹس نے رجسٹرار کو بھی حکم دیا کہ وہ اب کسی بھی طرح کی عرضداشتو ں کو قبول نہ کرے۔

سماعت کے دوران ایڈوکیٹ اعجاز مقبول نے اترپردیش حکومت کی نمائندگی کرنے والے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل تشار مہتا پر بھی نشانہ سادھا او رکہاکہ وہ بجائے اقلیتوں کے حقوق ک حفاظت کرنے کے اکثریتی فرقہ کے قریب دیکھائی دے رہے ہیں‘ جس کا عدالت کو نوٹس لینا چاہئے۔

مداخلت کاروں کی عرضداشت پر کاروائی کرنے کے بعد عدالت نے معاملے کی سماعت5یا7رکنی بنچ پر کیے جانے والی جمعیت علماء کی عرضداشت پر سنوائی کیے جانے کے احکامات جاری کیے۔

واضح رہے کہ اس سے قبل کی سماعت سہ رکنی بنچ اس بات پر بضد تھی کہ وہی معاملے کی سماعت کرے گی‘ لیکن ڈاکٹر راجیو دھون کے دلائل کے بعد عدالت اس بات پر راض ہوئی کہ وہ معاملے کی باقاعدہ سماعت شروع ہونے سے پہلے اس موضوع پر فیصلہ کرنا چاہتی ہے ۔

اسی دوران ڈاکٹر راجیو دھون نے اپنی بحث کا آغاز کیا اور عدالت کو بتایا کہ ڈاکر اسماعیل فاروقی فیصلے کی رو سے اس معاملے کی سماعت بھی کثیر رکنی یعنی دستوری بنچ پر کی جانی چاہئے ‘ کیونکہ یہ کوئی عام معاملہ نہیں ہے‘ راجیو دھون کی بحث جاری ہے اب معاملے کی سماعت 23مارچ کو دوبجے ہوگی۔