نئی دہلی : بابری مسجد ملکیت تنازع کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی والی بنچ کے سامنے شروع ہوئی ۔جس کے دوران جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے سینئر وکیل راجو چندرن نے اپنی بحث کا آغاز کیا او رعدالت کو بتا یا کہ اس معاملہ میں کئی پیچیدگیاں ہیں۔
جس کا لحاظ رکھتے ہوئے اس مقدمہ کی سماعت کثیر رکنی بنچرکھتے کے سپرد کردیتی چاہئے ۔نیز انہوں نے ڈاکٹر اسماعیل فاروقی فیصلہ میں ہوئی غلطیوں کی نشاندہی کی اور عدالت سے اس معاملہ پر از سر نو غور کرنے کی گذارش کی۔
رام چندرن نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ اس معاملہ کو بڑی آئینی بنچ کے سپرد کیا جائے ۔ہندومہاسبھا کے وکیل وشنو شنکر نے کیس کوآئینی بنچ کو بھیجے جانے کی مخالفت کی ہے ۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ آئین کا نہیں ہے صرف ایک جائداد تنازع ہے۔ اس لئے اسے بڑی بنچ کو بھیجنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔سپریم کورٹ نے معاملہ کی اگلی سماعت ۱۵؍ مئی مقرر کی ہے۔جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے گذشتہ کئی سماعتوں سے بحث کرنے والے سینئر ایڈوکیٹ ڈاکٹر راجیو دھون خرابی صحت کی وجہ سے حاضر نہیں ہوسکے۔
جن کی غیر موجودگی میں رام چندرن نے بحث کی ۔ممکن ہے کہ راجیو دھون اپنی نامکمل بحث اگلی سماعت میں پوری کرلیں گے۔ایڈوکیٹ راجو رام چندرن نے دوران بحث عدالت کو بتا یا کہ سینئر ایڈوکیٹ ہریش سالوے کا کہنا ہے کہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد سے ملک کے حالات تبدیل ہوچکے ہیں اور اس معاملہ کی اتنی اہمیت نہیں رہ گئی ہے جتنی عدالت میں بتائی جارہی ہے۔
بالکل بھی د رست نہیں ہے۔آج بھی مسلمانوں اور ملک کے انصاف پسند عوام کے جذبات اس مقدمہ سے جڑے ہیں۔راجو رام کی بحث کے بعد ہندو تنظیموں کی نمائندگی کرتے ہوئے ہریش سالو نے کہا کہ عدالت میں کہا کہ اس معاملہ سے دوس کمیونٹی کے جذبات جڑے ہیں او راس کے اثرات پورے ملک پر پڑیں گے ۔
اس معاملہ کو کثیر رکنی بنچ کے حوالے کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے ۔
نیز ہمیشہ سے یہی ہوتا رہا ہے کہ ہائی کورٹ کے فیصلو ں پر نظر ثانی ۳؍ رکنی بنچ ہی کرتا ہے۔ہریش سالوے نے کہا کہ عدالت عظمی کو جذبات سے بالاتر ہوکر فیصلہ کرنا ہوگا۔کیوں کہ یہ ایک زمین کا فیصلہ ہے۔
راجو رام چندرن نے سالوے کی اس بات کا سخت جواب دیتے ہوئے کہا کہ حالانکہ یہ ایک زمین کی ملکیت کا معاملہ ضرور ہے لیکن اس زمین کی بہت اہمیت ہے ۔کیوں کہ وہاں مسجد تھی جسے دن دھاڑے شہید کردیا گیا۔
لہذا عدالت کو ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرنا ہوگااور معاملہ کی نوعیت کے مد نظر اس مقدمہ کو کثیر رکنی بنچ کے حوالہ کرنا چاہئے