بابری مسجد معاملہ : مسجد اسلام کا لازمی جز ہے یا نہیں ؟ فیصلہ ۲۸؍ ستمبر کو متوقع 

نئی دہلی : بابری مسجد ۔ رام مندر حق ملکیت پر سماعت سے قبل ن۲۸ ؍ ستمبر کو سپریم کورٹ ایک اہم فیصلہ سنانے والا ہے ۔جس میں یہ طے کیا جانا والا ہے کہ مسجد اسلام کا حصہ ہے یا نہیں ؟ توقع ہے کہ سپریم کورٹ اپنے فیصلہ میں یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ اس مقدمہ کو پانچ سے سات رکنی آئینی بنچ میں منتقل کردیا جائے ۔ او راگر ایسا ہوتا ہے تو امید کی جارہی ہے کہ اصل مقدمہ کی سماعت اس و قت تک نہیں ہوسکتی جب تک کہ اس پر آئینی بنچ کوئی فیصلہ نہ سنا دے ۔

دراصل دوشنبہ کے روز موجودہ چیف جسٹس دیپک مشرا اپنے عہدہ سے سبکدوش ہورہے ہیں ۔او راس سے قبل انہیں جملہ آٹھ مقدمات میں فیصلے سنانے ہیں ۔ ان آٹھ مقدمات میں اہم ترین بابری مسجد ، آدھار کارڈ ، سبری مالا، اراکین اسمبلی اور اراکین پارلیمنٹ کی سزا وغیرہ شامل ہیں ۔امید کی جارہی ہے کہ ۲۸؍ ستمبر کوچیف جسٹس مذکورہ بالا فیصلے سناسکتے ہیں ۔ خبر یہ بھی آرہی ہے کہ چیف جسٹس مشرا بابری مسجد معاملہ آنے والے دوشنبہ کو اپنا فیصلہ سناسکتے ہیں کیونکہ وہ ان کا آخری دن ہوگا ۔سپریم کورٹ کے وکیل فضل ایوبی نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ ۲۸؍ ستمبر تک مسجد سے متعلق فیصلہ آئے گا کہ اسلام میں مسجد لازمی حصہ ہے یا نہیں ۔

انہوں نے کہا کہ اس فیصلہ کے بعد ہی بابری مسجد کے اصل مقدمہ کی سماعت شروع ہوگی ۔ ایڈوکیٹ ایوبی نے کہا کہ دراصل ہماری طرف سے سپریم کورٹ میں کہا گیاہے کہ پہلے آپ 1994ء میں کئے گئے اسماعیل فاروقی کے فیصلہ پر سماعت کرلیں کیونکہ یہ فیصلہ درست نہیں ہے کہ مسجد اسلام کا لازمی جزنہیں ہے جب کہ مسجدیں اسلام کا لازمی جز ہیں ۔انہوں نے کہا کہ اگر ۲۸؍ ستمبر کو مسجد سے متعلق فیصلہ سنادیاگیا تو اس کے بعد بابری مسجد حق ملکیت کا مقدمہ شروع ہوجائے گا ۔

اوراس کی سماعت ہونے لگے گی ۔انہوں نے کہا کہ اگر اس معاملہ کو آئینی بنچ منتقل کیاگیا تو پہلے وہاں اس کی سماعت مکمل ہوگی ۔اس کے بعد اصل مقدمہ کی سماعت ہوگی ۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب کو ۲۸ ؍ ستمبر کا انتظار ہے ۔ قانونی ماہرین مسجد اسلام کا لازمی جز ہے یا نہیں ، اس فیصلے کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے کیونکہ یہ ماحول پیدا کیا جارہا ہے کہ اگر مسجدیں اسلام کا لازمی جز نہیں ہے تو پھر بابری مسجد کا مقدمہ کمزور پڑسکتا ہے ۔