بابری مسجد شہادت کی آج 25 ویں برسی، ملک بھر میں چوکسی کی ہدایت

۔68 سال قدیم مقدمہ کے دو اصل فریقوں ہاشم انصاری اور مہنت رامچندر داس کی سپریم کورٹ سماعت میں کمی کا احساس

ہاشم انصاری تاریخی واقعات کے چشم دید گواہ تھے
22 ڈسمبر 1949 ء کی درمیانی شب بابری مسجد میں لارڈ رام کی مورتی رکھی گئی تھی
1987 ء میں مسجد کا تالہ کھولا گیا اور پوجا کی اجازت دی گئی
6 ڈسمبر 1992 ء کو مسجد شہید کردی گئی
2010 میں الہ آباد ہائی کورٹ نے اراضی کی تقسیم کا حکم دیا

نئی دہلی 5 ڈسمبر (سیاست ڈاٹ کام) اترپردیش کے ایودھیا ٹاؤن میں واقع بابری مسجد کی شہادت کے کل چہارشنبہ کو 25 سال مکمل ہوجائیں گے۔ سنگھ پریوار سے وابستہ کارسیوکوں نے 6 ڈسمبر 1992 ء کو مبینہ طور پر اس تاریخی مسجد کو شہید کردیا تھا۔ ربع صدی پیشتر کے اس واقعہ کو ہندوستان کے سیکولر چہرہ پر ایک بدنما داغ تصور کیا جاتا ہے۔ سخت گیر ہندوتوا عناصر کی جانب سے ربع صدی قبل کی گئی اس شرمناک و گھناؤنی حرکت کے خلاف ملک بھر میں ہر سال 6 ڈسمبر کو پرامن احتجاج کے ساتھ بابری مسجد کی انہدام کی یاد منائی جاتی ہے۔ مرکز نے کل بابری مسجد کے انہدام کی 25 ویں سالانہ یاد کے موقع پر تمام ریاستوں کو چوکسی اختیار کرتے ہوئے امن کی برقراری کو یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے تاکہ ملک کے کسی بھی مقام پر فرقہ وارانہ کشیدگی کا کوئی واقعہ پیش نہ آئے۔ مرکزی وزارت داخلہ نے اپنے اعلامیہ میں تمام ریاستوں اور مرکزی زیرانتظام علاقوں سے کہا ہے کہ حساس مقامات پر خاطر خواہ سکیورٹی فورسیس تعینات کئے جائیں اور زائد چوکسی اختیار کی جائے تاکہ امن و ہم آہنگی کو متاثر کرنے کی کسی بھی کوشش کو ناکام بنایا جاسکے۔ یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہے کہ بابری مسجد کے انہدام کی 25 ویں برسی سے ایک دن قبل یعنی آج 5 ڈسمبر سے سپریم کورٹ نے بابری مسجد ۔ رام جنم بھومی کے تقریباً 68 سالہ قدیم مقدمہ کی روزانہ سماعت کا آغاز کیا ہے۔ تاہم اس میں دو اصل فریق شامل نہیں رہیں گے۔ تاریخی شواہد کے مطابق یہ مسجد ۔ مندر تنازعہ 1949 ء میں اترپردیش کی ایک مقامی عدالت میں پہونچا تھا جب مہنت رامچندرا داس پرم ہنس رام لالہ کے درشن اور مورتی پوجا کی اجازت دینے کی استدعا کے ساتھ رجوع ہوئے تھے اور اس شہر (ایودھیا) میں متنازعہ مقام سے دیڑھ کیلو میٹر دور واقع محلہ کوٹیا کے ساکن ہاشم انصاری بھی عدالت سے رجوع ہوتے ہوئے بابری مسجد سے لارڈ راما کی مورتیاں ہٹانے کی درخواست کی تھی۔ مہنت رامچندرا داس اور ہاشم انصاری اس مقدمہ کے دو اصل اور قدیم ترین فریق تھے۔ رامچندر داس کا 20 جولائی 2003 ء میں انتقال ہوگیا تھا اور ہاشم انصاری کا گزشتہ سال جولائی میں انتقال ہوگیا۔ یہ دونوں اس مقدمہ کے فریق ہونے کے باوجود اخلاقی شائستگی کے ساتھ خوشگوار تعلقات برقرار رکھے ہوئے تھے۔ تاہم سپریم کورٹ میں اس تاریخی مقدمہ کی قطعی سماعت میں ان دونوں فریقوں کی کمی محسوس کی جائے گی۔ ہاشم انصاری اُس سنسنی خیز واقعہ کے چشم دید گواہ بھی تھے جب 22 ڈسمبر 1949 ء کی رات بابری مسجد کے مقام پر رام لالہ کی مورتیاں نمودار ہوئی تھیں۔ ہاشم انصاری وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے ہندو مہا سبھا کی جانب سے بابری مسجد پر ’ناجائز قبضہ‘ کے خلاف فیض آباد سیول جج کی عدالت میں مقدمہ دائر کیا تھا۔ اس لئے ہاشم انصاری کے انتقال کو ایودھیا تنازعہ میں ایک دور کا خاتمہ تصور کیا جاتا ہے کیونکہ انھوں نے نہ صرف 1949 ء میں بابری مسجد لارڈ رام کی مورتیوں کو رکھنے کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا بلکہ 1987 ء میں عدالتی حکم کے مطابق متنازعہ ڈھانچہ کا قفل کھولنے اور وہاں رام لالہ کی پوجا کا منظر بھی دیکھا تھا۔ وہ بھی اُن کی آنکھیں تھیں جنھوں نے بالآخر 6 ڈسمبر 1992 ء کو بابری مسجد کی شہادت کا المناک منظر اور پھر 2010 ء کے دوران لکھنؤ ہائی کورٹ کی طرف سے متنازعہ اراضی کی تین حصوں میں تقسیم کو دیکھا تھا۔ ہاشم انصاری 2011 ء میں اس مقدمہ کے پہلے مرافعہ گذار بنے تھے۔ اس مسئلہ پر جاری عدالتی کشاکش کے ایک اور معروف شخص مہنت بھاسکر داس تھے جو ایودھیا میں واقع نرموہی اکھاڑہ کے صدر پجاری ہیں۔ انھوں نے 1959 ء میں رام جنم بھومی کی اراضی کی ملکیت کے لئے درخواست دائر کی تھی۔ 1959 ء میں نرموہی اکھاڑہ کے مہنت رگھوناتھ داس نے بھی درخواست دائر کرتے ہوئے رام جنم بھومی پر اپنا دعویٰ کیا تھا۔