نئی دہلی : بابری مسجد ۔رام جنم بھومی حق ملکیت کے مقدمہ کی سماعت کے درمیان اسماعیل فاروقی فیصلے پر شروع ہوئی بحث مکمل کرلی گئی ہے ۔ چیف جسٹس دیپک مشرا کی صدارت والی سہ رکنی بنچ نے اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا ہے کہ اس مقدمہ کوآئینی بنچ میں منتقل کیا جائے یا نہیں ۔اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ میں اس وقت ہنگامی صورت پیدا ہوگئی جب جمعیۃ علماء ہند کے وکیل ڈاکٹر راجیو دھو ن کی ہندو طالبان والے بیان کی ہندو فریقین کی جانب سے زبردست مخالفت کی گئی نیز اس پر بھی گرما گرم بحث ہوئی لیکن اس دوران عدالت عظمیٰ نے ہنگامہ کررہے ہندو فریقین کو عدالت سے باہر نکال دیا ہے ۔ بعد ازاں دو بجے دن جیسے ہی بحث شروع ہوئی ہندو فریق کے وکلاء نے ڈاکٹر راجیو دھون کے ہندو طالبان والے طنز پر ہنگا مہ آرائی کی اور مطالبہ کیا کہ
وہ اپنا بیان واپس لیں ۔اس پر راجیو دھون نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ وہ اپنا بیان واپس نہیں لیں گے ۔ہندو فریق کے وکیل ہری شنکر جین نے کہا کہ راجیو دھون کے اس تبصرہ پر ہمیں سخت اعتراض ہے ۔انہوں نے پوری دنیا کے ہندوؤں کو تکلیف دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ راجیو پوری ہند ومذہب سے معافی مانگیں ۔اس پر راجیو دھون نے کہا کہ میں نے کوئی غلط بات نہیں کی ہے ۔میرے نزدیک بابری مسجد کو شہید کرنے والے ہندو طالبان ہی ہیں ۔
اس پر چیف جسٹس دیپک مشرا نے کہا کہ یہ لفظ غیر ضروری اور مناسب نہیں ہے ۔اس پر راجیو دھون نے کہا کہ مجھے چیف جسٹس کی رائے سے اتفاق نہیں ہے ۔میں اب بھی اپنے موقف پرقائم ہوں ۔میں نے کوئی غلط بات نہیں کہی ۔ہندو فریقین کی طرف سے سینئر وکلا ء نے عدالت سے درخواست کی کہ وہ ڈاکٹرراجیو دھون کو انتباہ کرے ۔
اس پر عدالت نے ڈاکٹر راجیو دھون سے کہا کہ وہ عدالت کی عظمت کا خیال رکھیں اورایسے لفظ کا استعمال کرنے سے گریز کریں جس سے کسی کی دلآزاری ہو۔ اس پر بھی جب ان وکلاء نے اپنا ہنگامہ جاری رکھا تو چیف جسٹس نے سکیوریٹی اہل کاروں کو حکم دیا کہ وہ انہیں عدالت سے باہر نکال دیں ۔