دشمن کے ارادے کو ہے ظاہر اگر کرنا
تم کھیل وہی کھیلو انداز بدل ڈالو
اے دوست کرو ہمت کچھ دور سویرا ہے
اگر چاہتے تو منزل تو پرواز بدل ڈالو
مارچ 11ایک ایسا دن تھا جس روز. لوک سبھا او راسمبی کی سیٹوں پر ہوئے چناؤ کے نتیجے سامنے آچکے ہیں۔ تین لوک سبھا اور اترپردیش او ر بہار میں دواسمبلی کی نشستوں پر ائے ضمنی انتخاب کے نتائج نے ایک بار پھر یہ ثابت کردیا ہے کہ ملک کیاسوچ رہا ہے اور اس کا موڈ کیاہے۔
ضمنی انتخابات کے نتائج ہمیشہ سرکاروں کی محنت او ران کے کام کاج کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ ان سے یہ پتہ چلتا ہے کہ سرکاریں کہاں کھڑیں او روہ عوام کے حق میںیا ان کے حلاف کیاکھیل کھیل رہی ہیں‘اسی کے حساب سے عوام اپنا داؤ چلتے ہیں۔ اگر عوام کو اس بات کا احساس ہوجائے کہ جمہوریت میں وہی سپریم ہے اور اس ملک کے ایک غرب ووٹر کی وہی حیثیت ہے جو اس ملک میں امبانی او روزیراعظ اور وزیراعلی کے ووٹ کی حیثیت ہے تو مجھے لگتا ہے کہ اسی دن ملک کی تقدیر بدل جائے گی۔
تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ عموماً جب بھی ضمنی انتخابات ہوتے ہیں وہی پارٹی جیت کامزہ چکھتی ہے جو اقتدار میں ہوتی ہے کیونکہ مانا یہ جاتا ہے کہ اقتدار میں ہونے اور عوام کے لئے کام کاج کا اس کو فائدہ مل سکتا ہے۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ برسراقتدار پارٹی کا پوری طرح صفایا ہوجائے اور اگر ایسا ہے تو برسراقتدار پارٹی کی زمینی حقیقت کا آندازہ لگانا مشکل نہیں ہے مگر ایسا بھی ہوتا ہے جب برسراقتدار پارٹی زمینی سطح پر کوئی نتائج نہ دے پائی ہو۔
وہ عوام کو کچھ دینے کے بجائے ہندو ۔ مسلم جھگڑوں میں الجھا کر رکھ دے۔ مجھے یہ لکھتے ہوئے شرم آتی ہے کہ اس ملک بی جے پی او رایسے لوگ پرچار کررہے ہیں کہ اگر وہ نہیں جیتے تو اورنگ زیب راج آجائے گا۔ اگر وہ نہیں جیتے تو جشن پاکستان میں منایاجائے گا۔ یہ بات کوئی معمولی ورکر کہے تو ایک وقت لیے اسبات کو نظر انداز کیاجاسکتا ہے لیکن اگر یہ بات ائین کی کرسیوں پر بیٹھے ہوئے لوگ کپیں تو سرشرم سے جھک جاتا ہے کہ یہ سب گاندھی او رباپو کے دیش میں ہورہا ہے ۔
شاید اب اس ملک کے باشعور ووٹر یہ سمجھنے لگے ہیں کہ اس ملک میں اسسے ان کو روٹی او ران کے بچوں کو تعلیم نہیں ملنے والی ہے۔ وہ اس بات کو سمجھنے لگے ہیں کہ اس طرح کے جعلی مسئلوں میں الجھ کر وہ اپنا ہی نہیں بلکہ اپنے بچوں او راپنی نسلوں کا مستقبل تباہ کررہے ہیں ۔
وہ اسی میں الجھے ہوئے ہیں او رلاکھوں کروڑ روپئے جس سے ان کے اپنوں کامقدر سنوارا جاسکتا تھا مودی ‘ مولیااو رچوکسی جیسے لوگ لے کر فرار ہوچکے ہیںیا ہورہے ہیںیا ہونے والے ہیں۔ او ران کو ہندو مسلم کا ایک انجکشن لگاکر اپنا مستقبل تباہ کرنے کے لئے چھوڑ دیاجاتا ہے۔بہرحال ضمنی انتخابات کے نتائج سامنے آچکے ہیں۔
سماج وادی پارٹی او ر بہوجن سماج پارٹی کے اتحاد نے اترپردیش کی پھولپور او رگورکھپور کی پارلیمانی سیٹ پر بی جے پی چاروں خانے چت کردیاہے ۔ اس سیٹ پر عتیق جیسے لوگ بھی کچھ خاص نہیں کرپائے۔ گورکھپور کی سیٹ جہاں وزیراعلی کی سیٹ تھی وہیں پھولپور کی سٹ نائب وزیراعلی کی تھی او ردونوں کو شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
یوگی جی بھی پریشن نظر آرہے ہیں او ر موریا جی بول ہی گئے کے اندازہ نہیں تھا کہ بی ایس پی کاووٹ سماج وادی پارٹی کوٹرانسفر ہوجائے گا۔ مطلب صاف ہے کہ کام کرکے جیتنا نہیں چاہتے بلکہ اس کا ووٹ اس کو نہ جائے اور وہ جیت جائیں اس طرح سے جنتا چاہتے ہیں۔ یعنی پوری طرح ’انک گڑت بیج گڑت او رریکھا گڑت میں ہی عوام کو الجھنا چاہتے ہیں۔
ایک سیٹ جہان آباد کی تھی جو سیدھے سیدھے موجودہ وزیراعلی او رسابق وزیر اعلی کے درمیان کی لڑائی کی تھی لیکن یہ سٹ بھی بیچارے نتیش جی نہیں بچاسکے۔ او رخوشی ہے کہ عوام نے دھوکہ باز سیاست دانوں کو یہ پیغام دے دیاکہ دھوکہ دیکر اقتدار میں زیادہ دیر تک نہیں رہا جاسکتا ہے۔
گورکھپور‘ پھولپور ضمنی انتخابات میں شکست کے بعد یوپی سی ایم یوگی ادتیہ ناتھ نے کہا ہم اس اتحاد کو سمجھنے میں ناکام رہے ‘ جس کی اہم وجہہ خود اعتمادی تھی ۔ دونوں انتخابات ہمارے لئے ایک سبق ہیں ‘ اس کا جائزہ لینے کی بڑی ضرورت ہے۔ یوگی نے کہاکہ وہ یہ فیصلہ قبول کرتے ہیں۔
جیتنے والے وامیدوار کو مبارکباد ہو۔ یوپی سی ایم بولے کہ آخری وقت میں ایس پی بی ایس پی ایک ساتھ ائیں‘ دونوں پارٹیاں راجیہ سبھا انتخابات کی وجہہ سے ایک ساتھ ائیں۔ ہم اس اتحاد کو سمجھنے میں ناکام رہے ‘ ہم بہتر مستقبل کی منصوبہ بندی پر کام کریں گے۔
بہرحال اس وقت اپوزیشن کو ایک جٹ ہونے کی ضرورت ہے اور اپنے وقتی فائدے کو دامی اور قومی فائدے پر مقدم کرنے کی ضرورت ہے ۔ بی ایس پی او رایس پی یعنی مایاوتی او راکھیلیش مبارکباد کے مستحق ہیں کہ جس طرح سے ماضی کی تلخیوں کو بھول کر وہ ایک ساتھ ائے ہیں اس سے پورے ملک کی اپوزیشن کو سبق لینے کی ضرورت ہے۔