تین دن قبل اپوزیشن جماعتوں بشمول کانگریس پارٹی نے پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس کے دوران اے بی پی نیوز کے تین سینئر صحافیوں کی برطرفی کے خلاف جم کاہنگامہ کیا۔
اپوزیشن کاالزام ہے کہ مرکز کی بی جے پی حکومت کے دباؤ میں ایسا کیا گیا کیونکہ مذکورہ صحافی‘ پنیا پرسن باجپائی‘ ملند کھانڈیکر اور ابھیشاشرما حکومت ہند کی فلاحی اسکیمات کی پول کھول رہے تھے۔
دراصل یہ معاملہ اس وقت شروع ہوا جب چھتیس گڑھ کی ایک کسان خاتون سے وزیراعظم نریندرمودی نے ویڈیوکال کے ذریعہ با ت کرتے ہوئے کسانوں کی آمدنی میں اضافے کے متعلق بات کہی اور اس خاتون نے وزیراعظم کو اپنے جواب میں کہاتھا کہ اس کی آمدنی میں دوگناہ اضافہ ہوگیا ہے۔
اسکے دوسرے دن اے بی نیوز کے سینئر جرنلسٹ پنیا پرسن باجپائی نے ایک ٹیم چھتیس گڑھ روانہ کرتے ہوئے خاتون کسان کے دعوی کی جانچ کرائی جس سے یہ بات سامنے ائی کہ دہلی سے کچھ افسر ائے تھے اور انہوں نے خاتون سے کہاکہ وزیراعظم نریند رمود ی سے ان کی بات کرائی جائے گی جسمیں انہیں کہنا ہے کہ ان کی آمدنی میں دوگناہ اضافہ ہوا ہے۔
پنیا پرسن باجپائی نے اس واقعہ کو بھی اپنے پروگرام میں دیکھا یاتھا۔مبینہ طور پر یہ کہا جارہا ہے کہ خاتون کی وضاحت دیکھنے کے بعد سے مسلسل اے بی پی نیوز پر یہ دباؤ بنایاجارہا تھا کہ رات نو بجے کے اس شو کے نیوز ایڈیٹر ملند کھانڈیکر ‘ اینکر وصحافی پنیاپرسن باجپائی اور مودی حکومت کے خلاف کھل کربات کرنے والے نیوز اینکر ابھیشار شرما کوفوری طور پرہٹایاجائے۔
ذرائع نے مبینہ طور پر یہ بھی کہا ہے کہ پی ایم او دفتر سے نیوزچیانل کے ذمہ دارا ن کومسلسل فون کالس آتے اور تینوں کوہٹانے کے لئے دباؤ ڈالا جاتا‘ اس کے علاوہ بی جے پی کے بڑے لیڈران بھی اس ضمن میں ان پر دباؤ ڈال رہے تھے ۔
اسی ضمن میں این ڈی ٹی و ینے ایک مباحثہ منعقد کیاتھا جسمیں ذرائع ابلاغ پر تنگ ہوتے گھیرے کے متعلق ملک کی صحافتی برداری نے سخت مذمت کی ہے۔