اے ائی ائی ایم ایس کی ڈاکٹر نے حادثے کو یاد کیا۔’طلوع آفتاب کے درمیان میں ہم تاج محل کامشاہدہ کرنا چاہ رہے تھے‘

ڈاکٹر ابھیناوا سنگھ جس کی عمر 25سال کا کہنا ہے کہ ہم ایک ہی پینگ گیس اکامڈیشن اور ہم اپنا زیادہ تر وقت ایک دوسرے کے کمروں میں ہی گذارتے تھے۔ اور اسی وجہہ سے ہم باہر ساتھ گئے تھے۔
اے ائی ائی ایم ایس کے ایمرجنسی شعبہ میں خدمات انجام دینے والے ریسڈنٹ ڈاکٹر ( نان اکیڈیمک)ایک روز قبل دو مرتبہ بیدار ہوئی خوف کے عالم میں۔

میں ہمبالا کے متعلق سونچ رہی تھے میرا احساس تھا کہ وہ مر چکی ہے۔ڈاکٹر ابھیناوا سنگھ جس کی عمر 25سال کا کہنا ہے کہ ہم ایک ہی پینگ گیس اکامڈیشن اور ہم اپنا زیادہ تر وقت ایک دوسرے کے کمروں میں ہی گذارتے تھے۔

اور اسی وجہہ سے ہم باہر ساتھ گئے تھے۔ابتداء میں ہم نے سونچا یہ ایک معمولی حادثے تھا جبکہ ہماری ہڈایا ں او رپھسلیاں ٹوٹ گئی تھیں۔ ہم چار کیتھرین ‘ مہیش ‘ جیتندر اور میں ۔ہم ایک ساتھ تھے۔

جب ہم نے ہمارے دیگر تین ساتھوں کے متعلق پوچھا وہ وہاں پر ہمارے ساتھ موجود نہیں تھے‘ ہمیں بتایا گیا کہ انہیں گہرے چوٹیاں لگنے کے سبب بڑے سنٹر ان کو شریک کیاگیاہے۔ مجھے آج صبح اسو قت جب ہمیں اے ائی ائی ایم ایس کو واپس لایاگیا وہاں پر پولیس نے جب ہمارے بیان قلمبند کیاتو اس وقت ہمیں جانکاری ملی کہ ہمارے تین دوست مرچکے ہیں۔ پھر اسکے بعد مذکورہ حادثہ سرخیو ں تھا اور ہم نے تباہ ہوئی کار کی ایک تصوئیربھی دیکھی۔

ہم نے سونچا نہیں تھا حادثہ اس قدر بھیانک ہوگا۔ وہ ہرشد سر کا برتھ ڈے تھا اور انہیوں نے رات میں ڈنر کے لئے باہر جانے کی بات کہی۔ ہم لوگ10:15کے قریب کناٹ پیلس پہنچے‘ مگر ہم بھول گئے یہ ہفتہ کی رات ہے۔ یہاں کے تمام مقامات پر ایک دیڑھ گھنٹے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ لہذا ہم نے مورتھل جانے کا فیصلہ کرلیا۔ہمارے پاس سے کسی ایک نے اپنے رشتہ دار کی کار حاصل کرلی اور ہم نے اپنے والدین کو بھی اس بات کی جانکاری دی۔

اس کے بعد ہم نے اگرہ جانے کا سونچا۔ ہم نے اگرہ جانے کا فیصلے کرتے ہی سڑک پکڑلی‘ ہم نے سونچا کے وہاں پر 5:30اور 6:00بجے صبح کے قریب پہنچ جائیں گے۔ہم تمام لوگ طلوع آفتاب کی روشنی میں تاج محل دیکھنا چاہتے تھے۔میں بہت جذباتی ہوگئی تھی ‘ میں پہلے بار دہلی میں اپنے دوستوں کے ساتھ شہر کے باہر جارہی تھی۔

میں نے گوہاٹی میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کی تکمیل کے بعد دوماہ قبل جنوری کے وسط میں اے ائی ائی ایم سی میں شمولیت اختیارکی تھی۔ ہم نے راستے میں دھابہ پر ڈنر کرنے کا سونچا۔ رات تقریبا1:30کا وقت تھا ۔ ہم لوگ ایک یادوگھنٹوں تک توقف ‘ اسکے متعلق مجھے برابر یاد نہیں ہے۔ جب ہم دھابے سے نکلے تو سڑکیں یکدم سنسان تھیں۔ہم سکون میں تھے اور آرام سے باتیں کررہے تھے۔

ہم نے کبھی سونچا بھی نہیں تھا اس طرح کا حادثہ ہمارے ساتھ پیش آئے گا۔میں کیتھرین اور ہمبالا کے ساتھ کار کی پیچھے کی سیٹ پر بیٹھی ہوئی تھی‘ جس کی وجہہ سے مجھے سڑک کانظارہ برابر دیکھائی نہیں دے رہاتھا۔ مگر اچانک کچھ زور کا جھٹکا ہمیں محسوس ہوا اور اس کے بعد کچھ یاد نہیں ہے‘ اور میں بھولنا بھی چاہتی ہوں۔

میں نے دیکھا کوئی مجھے کا ر سے کھینچ کر باہر نکال رہا ہے ‘ کیتھرین ایمبولنس میں پڑی ہے۔ میں کہنا چاہتی تھے کہ مجھے اس کے پاس ایمبولنس میں لیٹا دوں۔