ایک ماہ قبل پیش ائے عصمت ریزی اور قتل کی واردات نے گاؤں تقسیم کردیا۔

سات روزسے گمشدہ لڑکی کی نعش 17جنوری کو ملی ۔ پولیس نے کہاکہ لڑکی کو مبینہ عصمت ریزی اور قتل کیاگیا ہے۔
کاتھوا۔ایک ماہ قبل جھاڑوں کے درمیان سے لڑکی کی نشان ملی تھی وہاں پر جو نشانات اورمارکنگ کی گئی تھی وہ بھی اب تک مدھم نہیں ہوئی ہے۔ جموں کے قریب میں واقع کاتھوا کے راسانا گاؤں کے عقب میں الصبح سات سالہ لڑکی کی نعش جھاڑیوں کے درمیان میں ملی جو ایک ہفتہ قبل اپنی گھر سے لاپتہ ہوگئی تھی۔متوفی بچی کے والد جس کا تعلق باکھیر وال مسلم سماج سے ہے نے کہاکہ ’’ جب وہ دوماہ کی تھی تو میں نے اس کو میری بہن سے گود لیاتھا اور سات سالوں سے اپنی بیٹی کی طرح اس کی پرورش کررہاتھا‘‘۔

سات روزسے گمشدہ لڑکی کی نعش 17جنوری کو ملی ۔ پولیس نے کہاکہ لڑکی کو مبینہ عصمت ریزی اور قتل کیاگیا ہے۔ایک روز کے اندر ایک نابالغ بچے کو راسانا سے گرفتار کرکے اس کو بچوں کی جیل میں بند کردیاگیا۔جاریہ ماہ اسی علاقے کے دو اسپیشل پولیس افیسر دیپک کھاجوریہ اور سریندر ورما کو عصمت ریزی او رقتل کے الزمات میں گرفتار کیاگیا۔ مذکورہ جرائم اور گرفتاری کے پیش نظر پاکستان کی بین الاقوامی سر حد کے قریب میں واقع کاتھوا میں فرقہ وارانہ کشیدگی کے پیش نظر فوری طور سے احتیاطی احکامات نافذ کردئے گئے۔

آج راسانا میں تقسیم کی صورت حال صاف طور پر دیکھی جاسکتی ہے جہاں پر تیرہ برہمنوں اپنے گھروں میں تو ہیں مگر بیس میٹر لمبی دوسرے جانب اٹھ فن کا چوڑی لائن ہے۔ مقامی مکینوں اور باکھیر وال کے درمیان پچھلے چالیس سالوں سے یہاں پر شدید کشیدہ صورتحال کا سامنا ہے ‘ جو موسم سرما میں ہرسال گاؤں کے اطراف واکناف میں جنگل اور خانگی اراضی پر کیمپ قائم کرتے ہیں۔متوفی لڑکی کے والد نے کہاکہ ’’ اب لوگ من گھڑت کھانیاں پھیلا رہے ہیں‘ وہ میری بیٹی نہیں تھی‘ یہ کہ یہ افسوس ناک جرم باکھیروال کے لوگوں نے ہی انجام دیا ہے کیونکہ ان کا آپس میں جھگڑا ہے ۔

یہ تمام باتیں جھوٹ ہیں‘‘۔قومی شاہراہ44سے جڑے ’’ شری نگر کنیاکماری ہائی وے‘‘پر واقع راسانا کوٹاھ پنچایت کا حصہ ہے۔ کوٹاھ کے سابق سرپنچ کانت کمار نے کہاکہ لڑکی کی تدفین تک یہاں پر ’’ معمولی تناؤ ‘‘ تھا۔انہوں نے کہاکہ ’’گھر والی لڑکی کی نعش کو کوٹاھ میں دفن کرنا چاہتے تھے جو کے ایک خانگی زمین ہے مگر میں نے معاملے کو حل کردیا اور کانناگاؤں کے قریب میں واقعہ قبرستان میں تدفین کرنے کے لئے انہیں رضامند کیا‘‘۔ علاقے میں باکھیروال کے لوگوں کا ’’ سماجی بائیکاٹ‘‘ کی افواہوں کو کمار اور لڑکی کے والد دونوں نے مستر د کردیا۔ مگر یہ بات صاف ہے کہ اس واقعہ کی وجہہ سے علاقے میں تناؤ اور خوف کا ماحول ہے۔ گرفتا ر کئے گئے نابالغ بچے کی آنٹی نے کہاکہ ’’ اس طرح کا جرم راسانا میں پہلے کبھی نہیں ہوا۔

جب میں نے سنا کہ اس نے لڑکی کے ساتھ اس طرح کا کام کیا ہے تو میں روپڑی۔ اس عمر کی لڑکیاں چاہئے کسی بھی مذہب سے ان کاتعلق ہو دیوی کا روپ ہوتی ہیں‘ ہم اس کے لئے دعاء گو ہیں‘‘۔لڑکی کی نعش اس کے گھر سے بیس فٹ عقب سے ملی۔ انہوں نے کہاکہ ’’ مگر وہ معصوم ہے۔ اس طرح کا بے رحم عمل کرنے میں وہ حصہ دار نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ بہت کم عمر ہے۔

وہ تو رات کے اندھیرے میں گھر کے باہر قدم رکھنے سے بھی ڈرتا ہے۔ آنٹی نے کہاکہ اس کے چچاکے مطابق والد نے تین ماہ قبل ان کی بہن کے پاس لڑکے کو چھوڑ دیاتھا کیونکہ ’’ وہ خراب صعبتوں کاشکار ہوگیا تھا۔ مگر وہ اچھا لڑکا ہے۔ ہم ہندو برہمن ہیں۔ ہم اس طرح کے جرم انجام نہیں دے سکتے‘‘۔ ان کے گھر کے اطراف واکناف میں لگے گائے شیڈ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہو ں نے پولیسں پر جوابی وار کیا جس کا لڑکے پر الزام ہے کہ اس نے متوفی لڑکی کو مذکورہ کمپاونڈ کے اسٹور روم میں چھپا کر رکھا تھا۔

انہوں نے کہاکہ ’’ ہم ہرروز اندر جاتے ہیں اور باہر آتے ہیں ۔ اس کی دونوں جانب او راطراف میں گھر ہے۔ اگر وہاں پر کوئی سرگرمی ہوتے تو کسی نے نوٹس کیوں نہیں کیا؟کسی کو اس کے رونے یاچلانے کی آواز یں سنائی دیتی ‘‘۔انہو ں نے دعوی کیاکہ’’ اگر پولیس ہم سے پوچھ تاچھ کررہی ہے توان سے بھی پوچھ تاچھ کی جانی چاہئے۔ باکھیروالوں میںآپسی رنجشیں بہت ہیں۔ ان میں سے کسی نے یہ جرم کیاہوگا‘‘۔لڑکی کے والد کے کے مطابق اس کے علاوہ بیس سے زائد باکھیروال خانداینوں نے گاؤں کے مضافات میں ایک ہندو مالک سے اراضی خرید کر گھر تعمیر کئے تھے۔

انہو ں نے بارہ ہزار فی کنال سے چودہ کنال اراضی د س سال قبل خریدی تھی اور چار کمروں کا ایک گھر تعمیرکیا۔انہوں نے کہاکہ’’ کچھ لوگوں کوتاوھ میںیہ کہہ رہے ہیں کہ بکھیروال کے جانور ان کے کھیتوں میں جاکر ان کی فصلیں اور جھاڑ کھارہے ہیں‘‘اور مزیدیہ بھی کہاکہ پچاس بکریاں‘ پچاس بکرے اور بیس کے قریب ان کے پاس گھوڑے ہیں۔

مکینوں نے کہاکہ فبروری 8کے روز کرائم برانچ کی جانب سے گرفتار کئے گئے ایس پی او کھاجوریہ کو اس احتجاج کے پیش نظر گرفتار کیاگیا ہے جو باکھیروال کے جانوروں پر اعتراض کرتے ہیں۔ دو کیلومیٹر کے قریب فاصلے پر رہنے والے کھاجاریہ کے گھر والوں اس بات کا زوردے رہے ہیں کہ اس کو زبردستی کیس میں ماخوذ کیاگیا ہے۔

دیپک کا بکھیر وال سے جھگڑا ہوا تھا جو متوفی لڑکی کے والد کے پڑوس تھا جس کے جانور دیپک کے کھیت جو راسانا میں واقع ہے کو نقصان پہنچایاہے۔ ملزم کے والد اور جے اینڈ کے مصلح پولیس کے حوالد اپادھیش کھاجوریہ نے کا دعوی ہے کہ چالیس سے میں لڑکی کے والد کو جانتا ہوں۔ وہ ایک اچھا آدمی ہے‘ مگر کچھ او رلوگ ہیں جو پولیس پر دیپو کوماخوذ کرنے کے لئے دباؤ ڈالا ہے تاکہ اس سے اپنا بدلہ لیاجاسکے‘‘۔ والد نے دعوی کیا ہے کہ ’’ چار سال قبل دیپک ایس پی او بنا اور کوٹاھ ہائی وے کے چیک پوسٹ پر رات کی نوکری کررہا تھا ۔

مویشیوں کی تسکری کرنے والے چند ایک بکھیر والوں سے سے اس کی نوک جھونک ہوگئی‘‘۔ دو ماہ میں ریٹائر ہونے والے اپادھیش نے الزام عائد کیا کہ ان کے بیٹے کو جموں میں کرائم برانچ کے دفتر کو ’’ جھوٹے مقدمے ‘‘ میں لے جایاگیا اور ’’ گھنٹوں تک مارپیٹ ‘‘ کی۔انہوں نے کہاکہ ’’ یہاں تک میں نے کوئی جرم نہیں کیاہے۔ اور تھرڈ ڈگری کی مارپیٹ پر وہ بھی میں قبول کرلوں گا۔ میں اپنے بیٹے کو جانتا وں‘وہ ایسے ہر گز نہیں کرسکتا‘‘۔

مذکورہ والد نے کہاکہ ’’ وہ لڑکی سب سے بیٹی تھی۔ یہ دل کو دہلادینا والا جرم ہے‘خاطی کو کڑی سزا ملنا چاہئے۔ مگر پولیس کو صحیح مجرم کی گرفتاری عمل میں لانا چاہئے۔ اپریل میں دیپک کی شادی ہوئی ہے۔ لڑکی کے گھر والو ں نے بھی اس بات کو قبول کیا ہے کہ دیپک بے قصور ہے دامیال میں ہر کوئی اس کو کلین چٹ دے چکا ہے‘‘۔ کرائم برانچ کے مطابق ملزم کے خلاف ان کے پا س پختہ ثبوت ہے۔

اور کیس کی جانچ کررہے پولیس افیسر کے مطابق یہ منصوبہ بند کرائم ہے جس کی سازش ہفتوں قبل کی گئی تھی۔ پوسٹ مارئم او رفارنسک رپورٹ کا انتظا ر ہے او رپولیس ڈی این اے ٹسٹ کے لئے عدالت کا رخ کرنے کی تیاری کررہی ہے۔ او ربھی گرفتاریاں ہوسکتی ہیں۔