یہ نہ صرف قابل قدر ہوگا بلکہ واحد ذریعہ ہے جس کے تحت گورنر کرناٹک کے ادارے کی شبہہ کو پہنچنے والے نقصان کا اعادہ بھی ہوگا۔
کرناٹک۔اس ہفتہ گورنر کرناٹک کے طور پر وجو بھائی والا قابل نفرت دیکھائی دے رہے ہیں۔
وہ نہ صرف اسلئے کہ انہوں نے بی ایس یدی یورپا کو بطور چیف منسٹر حلف دلاکر بڑی غلطی کی ‘ جبکہ ان کے پاس واضح اکثریت نہیں تھی اور اس پر ستم ظریفی یہ کہ یدی وراپا نے ایوان میں اعتماد کے ووٹ کا بھی سامنا نہیں کرسکے۔اسی وجہہ سے ان کے پا س استعفیٰ کے سوائے دوسرا راستہ نہیں تھا۔
ان تمام واقعات کی وجہہ سے گورنر کرناٹک کے شبہہ نہایت متاثر ہوئی ہے۔واحد بڑی پارٹی کے طور پر کانگریس اور آر جے ڈی نے کرناٹک کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے بہار اور گوا میں حکومت کی تشکیل کا دعوی پیش کردیا۔
کرناٹک حکومت کی تشکیل؟ جب اس کا اختتام عمل میں آیا تو دوسرا فریق نہایت پائیدار تھا۔کم سے کم چھ ایسے مثالیں اس واقعہ میں ملتی ہیں جس ہمیں 2001میں واپس لے جائیں گی‘ وہ یہ ہیں کہ اگردوسرا فریق اور تیسرا فریق متحدہوکر اپنی اکثریت پیش کرتے ہوئے ان کے لیڈر کو چیف منسٹر کا دعویدار پیش کرسکتے ہیں‘جو واحد بڑی سیاسی جماعت سے اوپر ہوتے ہیں۔
مگر گورنر نے بناء کسی وضاحت کے انہیں مسترد کردیا۔دوسرا یہاں پر سپریم کورٹ کے فیصلہ بشمول پانچ ججوں کی دستور ی بنچ 2006میں سے ایک سے صاف ہوگیا کہ جس نے یہ صاف کردیا کہ ایک شخص جو اکثریت کے ساتھ ہے ان میں سے ایک ہے جس فرد کو گورنر ضروری طور پر بلائیں اور وہ اکثریت کی تشکیل کے لئے کوئی بیہودہ سوال نہ کرے ۔
یہ وہ ہے جو سپریم کور ٹ نے 2006میں رامیشوار پرساد کے کیس میں کہاتھا اور یہ اس سے الگ نہیں ہے کیونکہ گورنر کرناٹک کے پاس اس کو نظر انداز کرنے کی کوئی صورت نہیں ہے کہ’’ اگر کوئی سیاسی جماعت دوسری سیاسی جماعت کے ساتھ اتحاد کرے یا پھر اراکین اسمبلی کو ساتھ لے کر حکومت کی تشکیل کا دعوی کرے تو گورنر پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ درکار اکثریت کاجائزہ لے ‘
گورنر حکومت کی تشکیل کو نظر انداز نہیں کرسکتے یا پھر اکثریت کے اس دعوی کو بھی محض اس لئے مسترد نہیں کرسکتے کیونکہ اس میں ان کے ذاتی مفادات کارفرما ہیں جس سے غیر قانونی طور پر اکثریت حاصل کرنے کا موقع ملا رہا ہے جس کے معنی غیراخلافی طریقہ کار بھی۔ گورنر کو اس طرح کے طاقت کا استعمال ذاتی مفاد کے لئے نہیں کرنا چاہئے۔اس طرح کی طاقت کا استعمال اکثریتی قوانین کے جمہوری اقدار کے خلاف ہوسکتا ہے۔
اگر گورنر یاپھر صدر کے پاس اس طرح کے اختیارات ہیں تو نتیجہ دھماکو خیز ثابت ہوسکتا ہے‘‘۔لہذا اب وجوبھائی والا کو ناقابل فراموش سوالات کا سامنا ہے۔ اس میں سب سے زیادہ پوچھے جانے والا سوال کیا انہیں استعفیٰ دینا چاہئے؟ ۔ یہ نہ صرف ان کے لئے ایک محترم اقدام ہوگا بلکہ گورنر کرناٹک کے ادارے کی جو شبہہ متاثر ہوئی ہے ان اس استعفیٰ سے کو بدلا جاسکے گا۔
حادثاتی طور پر یہ وہ نقصان ہے جس کے متعلق وہ ذاتی طور پر اس لئے بھی متاثر کیونکہ انہوں نے نہ صرف یدی یوراپا کا انتخاب کیابلکہ انہوں نے جزوی وقت کے اسپیکر کے طور پر کے جی بھوپیا کا تقرر بھی عمل میں لایا۔سچ تو یہ ہے کہ ان کے اس اقدام نے تنازعات کے لئے راہ ہموار کی ہے۔
یہاں تک کہ اگر وجو بھائی والا اس نقصان کو جس سے وہ خود متاثر ہوئے ہیں کو نظر انداز کرنے کی کوشش کریں گے تو ‘ یقیناًبطورطویل مدت کے سابق سیاست داں انہیں اس با ت کا احساس کرنا ہوگا کہ وہ کرناٹک گورنر شب کی امیج کو برقرار رکھنے میں کس حد تک اپنی ذمہ داری کو انجام دے پائے ہیں؟
مگر وجو بھائی والا استعفیٰ دیں گے؟ مجھے نہیں معلوم مگر یقینی طور پر مجھے شبہ ہے۔ایک شخص جس نے اپنی ساری سیاسی زندگی کو بے داغ رکھا اور ایک عہدے پر پہنچ کر پریشان کرنے والے لوگوں کے نرغے میں آکر نہ صرف اپنی شبہہ متاثر کی بلکہ دستوری عہدے کے اہمیت کو نقصان پہنچانے کے اقدام اٹھائے تو ایسے شخص سے امید کی جاسکتی ہے وہ اپنی شبہہ کو ہونے والے نقصان کا اعادہ کریگا۔
یقیناًمجھے امید ہے کہ میں غلط ثابت ہوگا۔ مگر یہ سچ اس وقت ہوگا جب میں غلط ثابت ہوجاؤں‘ اس وقت میں وجو بھائی والا سے معافی بھی مانگ لوگوں گے کیونکہ مجھے شبہ تھا۔ مگر پہلا وہ مجھے غلط ثابت کریں ۔ میںیہی سمجھتاہوں کہ وہ مجھے غلط ثابت نہیں کرسکتے‘‘۔