نئی دہلی۔ ایودھیا تنازع سپریم کورٹ کی دستور ی بنچ کے حوالے کرنے کو لے کر مسلم فریق نے اپنی بحث منگل کے روز پوری کرلی ہے ۔ ہندو فریق کی جانب سے بحث کی شروعات عمل میں ائی ہے جو جمعرات تک جاری رہے گی۔شیعہ بورڈ نے بھی بحث میں شامل ہونے کی اجازت مانگی ہے۔
بورڈ کا کہنا ہے کہ سنٹر سنی وقف بورڈ پورے مسلمانوں کی نمائندگی نہیں کرتا۔ مرکزی کی جانب سے اے سی جی توشار مہتا نے چیف جسٹس آف انڈیا دیپک مشرا‘ اشوک بھوشن‘ اور ایس اے نظیر کی خصوصی بنچ سے کہاکہ وہ بھی بحث کریں گے۔ مہتا نے کہاکہ زمین پر قبضے سے متعلق ہے‘ اس لئے ان کا اپنی بات رکھنا ضروری ہے۔
امکان ہے کہ سپریم کورٹ اس معاملہ میںآج اپنا فیصلہ محفوظ کرسکتا ہے۔مسلم فریق کی طرف سے مشہور ماہر قانون راجیو دھون نے کہاکہ اس معاملہ کو دستور ی بنچ کے حوالہ کرنا چاہئے۔
انہوں نے 1984کے اسمعیل فاروقی کیس کا حوالہ دیا‘ جس میںیہ کہاگیاتھا کہ مسجد مسلم مذہب کی غیر معمولی (اٹوٹ) حصہ نہیں ہے او رنماز کی ادائی کے لئے مسجد ضروری نہیں ہوتی۔ اس فیصلے پر الہ آباد ہائی کورٹ نے پورایقین کیا اور اسی بنیاد پر کیس کا فیصلہ کردیا کہ مسجد مسلم سماج کے لئے اہمیت کی حامل نہیں ہے۔
فاروقی معاملہ میں سپریم کورٹ کی دستور ی بنچ نے 2.77ایکڑ کے متنازع اراضی کو مرکز ی حکومت کی جانب سے کئے گئے قبضے کو درست ٹھرایاتھا۔
ہندو فریق کے طور پر مشہور وکیل کے پرسننا نے بحث کی ۔ انہوں نے کہاکہ مسلم فریق کی جانب سے اب یہ نہیں کہاجاسکتا کہ فیصلہ دستوری بنچ کو سونپنے کی بات کی جارہی ہے۔
اگرمسلم فریق کی دلیلوں کو قبول کرلیاجائے تو متنازع اراضی پر مرکز کا قبضہ ہی غیر قانونی ہوجائے گا۔ جمعرات کے روز بھی سنوائی کاسلسلہ جاری رہا۔مسلم فریق نے سنوائی کے دوران کہاکہ ہندو فریق باربار مندر کی تعمیر کی بات کرتا ہے جبکہ معاملہ عدالت میں زیرالتوا ہے لہذا ہم عدالت کی نافرمانی کا ایک مقدمہ دائر کیاجائے گا