عدالت کو باور کروایا گیا تھا کہ سبرامنیم سوامی فریق ہیں، لیکن میڈیا سے پتہ چلا کہ وہ فریق نہیں ہیں: بنچ کا تاثر
نئی دہلی ۔ 31 مارچ (سیاست ڈاٹ کام) سپریم کورٹ نے ایودھیا میں بابری مسجد۔ رام مندر مقدمہ سے متعلق سیول درخواستوں پر عاجلانہ سماعت کی ہدایت دینے سے انکار کردیا ہے۔ چیف جسٹس جے ایس کھیہر کی قیادت میں ایک بنچ نے دوران سماعت بی جے پی لیڈر سبرامنیم سوامی نے کہا کہ عدالت کو یہ باور کروایا گیا ہیکہ جاریہ تنازعہ میں وہ بھی ایک فریق ہیں جس کے نتیجہ میں چیف جسٹس آف انڈیا نے تنازعہ کے فریقین کے درمیان ثالثی کی پیشکش کی تھی۔ بنچ نے سوامی سے کہا کہ ’’آپ نے ہم سے نہیں کہا تھا کہ آپ اس مقدمہ فریق نہیں ہیں۔ ہمیں صرف صحافت سے اس کا علم ہوا ہے (کہ آپ فریق نہیں ہیں)‘‘۔ تاہم سوامی نے کہا کہ وہ یہ واضح کرچکے ہیں کہ وہ صرف پوجا کیلئے اپنے بنیادی حق کے مسئلہ کے ساتھ رجوع ہوئے ہیں۔ سوامی نے کہا کہ ’’مقدمہ کے زیردوراں رہنے سے پوجا کا حق متاثر ہوا ہے میں درمیان میں درخواست داخل کیا ہوں‘‘۔ بنچ نے کہا کہ وہ اس مقدمہ میں فاسٹ ٹرک (سریع الساعت) کیلئے تیار نہیں ہے۔ قبل ازیں عدالت عظمیٰ نے بابری مسجد۔ رام مندر تنازعہ کی بیرون عدالت یکسوئی پر زور دیا تھا اور 21 مارچ کو یہ تاثر دیا تھا کہ پیچیدہ تنازعہ کی بامعنی یکسوئی کیلئے ’’کچھ لو اور کچھ دو‘‘ پر مبنی اندازفکر اختیار کرتے ہوئے خلوص نیت کے ساتھ مذاکرات کئے جائیں۔ عدالت عظمیٰ نے کہا تھا کہ مذہب اور جذبات کے مسائل مذاکرات کے ذریعہ ہی بہتر انداز میں حل کئے جاسکتے ہیں۔ چیف جسٹس کھیہر نے فریقوں کے مابین ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کی تھی اور ان کی زیرقیادت بنچ نے تنازعہ کے پرامن تصفیہ کیلئے فریقوں کو ’’کچھ لو اور کچھ دو‘‘ پر مبنی اندازفکر اختیار کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ الہ آباد ہائیکورٹ کی لکھنؤ بنچ نے 2010ء میں اترپردیش میں 2.77 ایکر متنازعہ اراضی کو تین میں تقسیم کرتے ہوئے رولنگ جاری کی تھی۔، تین ججوں پر مبنی بنچ نے ایک کے مقابلے دو کے اکثریتی فیصلے میں کہا تھا کہ اس زمین کو تین فریقوں سنی وقف بورڈ، نرموہی اکھاڑہ اور رام لالہ کے درمیان مساویانہ طور پر تقسیم کیا جائے۔ عدالت عظمیٰ نے گذشتہ سال سبرامنیم سوامی کو ایودھیا میں ملکیت کے اس تنازعہ سے متعلق زیرتصفیہ معاملت کی یکسوئی کیلئے سوامی کو مداخلت کی اجازت دی تھی جنہوں نے مہندر ڈھانچہ کے مقام پر رام مندر کی تعمیر کی اپیل کے ساتھ درخواست دائر کی تھی۔ بی جے پی لیڈر سوامی نے ایودھیا میں رام مندر بنانے کی اجازت کی درخواست کے ساتھ یہ استدلال پیش کیا تھا کہ اسلامی ممالک میں مروجہ روایات کے تحت کسی مسجد کو سڑکوں کی تعمیر جیسے عوامی مقاصد کیلئے دوسرے مقام کو منتقل کیا جاسکتا ہے لیکن کسی مندر کو ایک مرتبہ تعمیر کے بعد اس مقصد سے چھوا بھی نہیں جاسکتا۔