بالآخر سمیرن نیسا نے عیدالاضحی آسام کے اپنے گھر میں ایک ہندوستانی شہری کے طور پر منائی۔
وہ ایک ناخواندہ اور غیر شادی شدہ عورت ہے جو سڑک کے کنارے لگی کھانے کی دکانوں پر پلیٹ دھوکر اپنی گذارہ کرتی ہیں۔پچھلے کئی سالوں تک غیر قانونی تارکین وطن کے شک میں زندگی گذار نے والی مذکورہ عورت کو ایک ہندوستانی قراردیتے ہوئے 17اگست کے روز بر ی کردیاگیا۔
غیر قانونی تارکین وطن کے طور پر انہوں نے اپنے آخری چار ماہ خواتین کے قید خانہ میں گذارے ہیں
۔ان کی غیرموجودگی کے پیش نظر پچھلے سال جولائی میں گول پارا کی ایک بیرونی ٹربیونل نے انہیں غیر قانونی تارکین وطن قراردیاتھا۔
ان کا واقعہ ٹریبونل کے سامنے اس وقت آیا جب انہیں 2005میں مشتبہ ووٹر ( ڈی ووٹر) کے زمرے میں شامل کیاگیاتھا۔
سمرین کی قیدکے تقریبا تین ماہ بعد رجسٹرار جنرل آف انڈیا نے این آر سی کی جب قطعی فہرست جاری کی تھی‘ جس میں تقریبا سرحدی ریاست آسام کے چالیس لاکھ لوگوں کے نام نکال دئے گئے تھے‘ ایسے کئے لوگوں میں اس طرح کی قید کا خوف طاری ہوگیا تھا۔
مذکورہ خاتون کی قید کے چار دن بعد ان کی چھوٹے بھائی 24سالہ الطاف حسین پیشہ جو لیبر ہے کیمپ ان سے ملاقات کے لئے گئے۔حسین نے کہاکہ’’ میں بذریعہ بس کیمپ گیا جس کے لئے پانچ سے چھ گھنٹو ں کاوقت لگا۔ میں نے پندرہ منٹ تک بات کی ۔ ہم دونوں روپڑے۔
ہم وہاں پر خوف کے ماحول میں تھے‘‘۔
کیمپ میں قید کے اوقات کو یاد کرتے ہوئے نیسا نے کہاکہ ان کی وہاں پر ایک ایسی عور ت سے ملاقات ہوئی ہے جو اٹھ تانو سال سے وہاں پر قید میں ہے۔ اور انہوں نے حلیمہ خاتون کے کیس کا بھی ذکر کیاجو2009سے قید میں ہے۔
نیسا نے کہاکہ ’’ جب میں باہر ائی وہ لوگ میرے کے لئے کافی خوش تھے۔ ان کے لئے دعاء کی مجھ سے گذار ش کی ‘‘