نئی دہلی۔ سپریم کورٹ نے واضح کردیا ہے کہ آسام میں نیشنل راجسٹرار آف سٹیزن( این آر سی) کے متعلق قطعی فہرست کی اجرائی کے لئے وقت اور تاریخ کاتعین حکومت نہیں بلکہ عدالت خود کریگی۔
وہیں 14اگست کے روز مسودی سے متعلق مرکزی حکومت نے ایک ایس او پی جاری کرتے ہوئے دعوی کیاہے کہ اعتراضات او رتجویز کی پیشکش کی جانچ کے لئے تاریخ کاتعین کیاجانا چاہئے۔
جسٹس رنجن گوگوئی ‘ نوین سنہا اور کے ایم جوزف پر مشتمل بنچ نے مسودہ میں دی گئی تاریخ کو غیر نامنظور او رکہاکہ سپریم کورٹ اس معاملے میں خود فیصلے کریگا۔
عدالت عظمہ میں داخل کردہ اپنے حلف نامہ میں مرکز نے کہاکہ جن لوگوں نے نکالے گئے ہیں وہ این آر سی میں دوبارہ شمولیت کے لئے اپنے دعوؤں کے لئے درخواست 30اگست تا28اکٹوبر تک داخل کرسکتے ہیں۔
اس میں کہاگیاہے کہ ’’ درخواستوں پر سنوائی 15ڈسمبر سے شروع ہوگی اور درخواستوں کو حاصل کئے جانے کے بعد ہی ان کی اخراج کے عمل کا تعین کیاجائے گا‘‘۔
معزز عدالت نے حکومت کی جانب سے 30اگست کی مقرر تاریخ کو اعتراضات اور دعوؤں پر تجویز حاصل کرنے کے متعلق قبول کرلیاہے مگر کہاکہ وقت اگلے وقت کا تعین 28اگست کی سنوائی میں عدالت کریگی‘‘۔
بنچ نے تمام ریاستی اداروں اور تنظیموں بشمول کل آسام اسٹوڈنٹ یونین‘ کل آسام اقلیتی اسٹوڈنٹ یونین‘ اور جمعیتہ علماء ہند سے حکومت کے ایس او پیز پر ردعمل بھی مانگا ہے۔ جائزہ 25اگست2018کو عدالت میں پیش کیاجائے گا اور پھر ایس او پی پر اگلے سنوائی موخر ہوگی۔
معزز عدالت نے آسام این آر سی کوارڈنیٹر پرتیک ہجیالا سے کہا ہے کہ وہ ریاست میں این آر سی مسودہ میں نکالے گئے ناموں کی آبادی کے ضلعی سطح کے تناسب کو عدالت میں پیش کرے۔
اور ہجیالا کو اسبات کی بھی ہدایت دی گئی کہ مسودہ کی کاپیاں تمام پنچایت دفاتر میں پہنچائیں جائیں تاکہ لوگوں کو آسان کے ساتھ وہ دستیاب ہوسکیں۔ این آر سی آسام کا مکمل مسودہ 31جولائی کے روز شائع کیاگیا تھا جس میں چار لاکھ لوگوں کے نام کی عدم موجودگی کی باتیں کی جارہی ہیں۔
این آر سی کے عمل کی نگرانی کررہی عدالت عظمہ نے کہاکہ قبل ازیں کہا ہے کہ ان شہریوں کے دعوؤں کو جن کے نام آسام میں جاری مسودہ میں نکالے گئے ہیں انہیں اپنی شہریت ثابت کرنے کا بھرپور موقع دیاجائے گا اور اگر وہ ثابت کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو ان کا نام دوبارہ شامل کیاجائے گا