نئی دہلی : آسام شہریت کے ۵؍ الگ الگ معاملہ پر آج سماعت سپریم کورٹ کے جسٹس رنجن گوگوئی اور جسٹس ایف نریمن کی بنچ کے سامنے سماعت کا آغاز ہوا ۔جمعیۃ علماء ہند کے سینئر وکیل کپل سبل اور سلمان خورشید اور وکیل ؔ آن ریکارڈ فضیل ایوبی پیش ہوئے مگر این آر سی کے متعلق کوئی کارروائی نہیں کی گئی ۔ عدالت اس کی سماعت ۵؍ ستمبر مقررر کی ہے۔
عدالت نے یہ حکم دیا کہ ہر این ایس کے سے ۱۰؍ فیصد لوگوں کا ری ویر فیکشن کروایا جائے ۔ عدالت نے کہا کہ جن لوگو ں کا این آر سی فہرست میں نام شامل ہوچکا ہے ان میں سے ہر این ایس کے میں سے ۱۰؍ فیصد لوگوں کے نامو ں کا ری ویری فکشن ہو اور اس عمل میں ۱۰ فیصد لوگو ں کا انتخاب الگ الگ علاقوں سے ہو ۔ عدالت نے یہ حکم بھی دیا ہے کہ دوسرے این ایس کے کے افسران ہی جانچ کی کارروائی کریں ۔قابل ذکر ہے کہ اس نتیجہ میں تقریبا ۲۸؍ لاکھ لوگو ں کودوبارہ این آر سی کے عمل سے گذرنا ہوگا ۔
حکو مت کی طرف سے اس نئے طریقہ کار میں یہ کہا گیا کہ اگر کسی درخواست گذار نے اپنی شہریت کے ثبوت میں اپنے باپ کا نام پیش کیا مگر اپنی شہریت ثابت نہیں کرسکا اور اس کا نام این آرسی میں نہیں آپایا ہے تو اب وہ اپنی شہریت کے ثبوت کے طور پر اپنے دادا اور ماں کا نام کا پیش کرسکتا ہے۔اٹارنی جنر ل نے کہا کہ ایسا اس لئے کیا گیا ہے کہ جن لوگوں کا نام این آر سی میں شامل نہیں ہوسکا ہے انہیں ایک موقع فراہم کیا جائے تا کہ وہ اپنی شہریت ثابت کرسکیں ۔اس عدالت نے کہا کہ حکومت اس معاملہ کے تمام پہلوؤں کا اچھی طرح مطالعہ کرکے ہمیں تحریری طور پر آگاہ کریں اور اس صورت میں مزید دقتیں پیش آئیں تو اس ان سے کس طرح نمٹا جائے گا ۔