ڈھاکہ:جمعرات کے روز رضاکارانہ تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہاکہ بین الاقوامی کمیونٹی کو چاہئے کہ وہ روہنگی تارکین وطن کی اس بات میں مدد کے لئے آگے ائیں کہ انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی کے پیش نظر انہیں میانمار واپس جانے سے روکنے کا کام کیاجائے اور اس ے پیش نظر بنگلہ دیش و ناؤ پائی ٹاؤ کے درمیان میں ایک معاہدہ بھی طئے پانا چاہئے تاکہ روہنگیوں کے حقوق پر بات چیت کے لئے ایک گروپ کی تشکیل عمل میں لائی جاسکے۔
حکومت بنگلہ دیش اور میانمار نے روہنگی تارکین وطن کے متعلق بات چیت کے لئے ہم ایک گروپ کا نفاذ عمل میں لانے کا پیر کے روز اعلان کیاتھا۔ایک ماہ کے مختصر وقفے میں پانچ لاکھ سے زائد روہنگی مرد او رعورتیں بشمول بچے ریاست راکھین میں ملٹری اپریشن کے پیش نظر ریاست چھوڑ کر راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
بین الاقوامی مسائل برائے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ڈائرکٹر اے گاؤگھرن نے کہاکہ ’’ جب میانمار اور بنگلہ دیش روہنگیوں کی محفوظ انداز میں ان کے وطن واپسی پر مذاکرات کررہے ہیں‘تو اس مطلب یہ نہیں ہے کہ مشکل حالات کا شکار لوگوں کو دوبارہ پریشانی میں جبری طور پر ڈھکیلا جائے‘‘۔انہو ں نے مزیدکہاکہ ’’شدید انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا سامنا کررہے کسی کوبھی زبردستی واپس نہیں بھیجاجاسکتا ‘‘۔
انہوں نے کہاکہ میانمار کی فوج’’ راکھین ریاست میں روہنگی کے خلاف خطرناک مہم چلارہی ہے‘‘ جس انسانیت کے خلاف سب سے بڑا جرم ہے۔انہوں نے کہاکہ’’ مصائب زدہ لوگوں کی ان کے وطن واپسی سے قبل متاثرہ علاقے میں غیر مشروط طریقے سے تشدد کے خاتمے کو یقینی بنانا ہوگا ۔
میانمار حکومت کو چاہئے کہ صدیوں سے سلسلے وار انداز میں روہنگیوں کے ساتھ تشدد کے جو واقعات انجام دئے جارہے ہیں اس کے خاتمے کو یقینی بنانے کاکام کرہے‘‘۔
اکٹوبر 2کے روز بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ اے ایچ محمود علی نے ڈھاکہ میں کہاتھا کہ میانمار روہنگیوں کو وطن واپس بلانے میں’’ دلچسپی دیکھا رہا ہے‘‘۔
یواین کی تارکین وطن ایجنسی ‘ یو این ایچ سی آر کی مدد سے بنگلہ دیش اور میانمار کے درمیان میں بات چیت کے بعد 1990اور2000کے دوران ہزاروں روہنگی تارکین وطن بنگلہ دیش سے میانمار منتقل ہوئے تھے۔
ایمسنٹی انٹرنیشنل کا مشاہدہ ہے کہ اس وقت واپس جانے والے لوگ مسلسل ناانصافیوں اور ریاست راکھین میں تشدد کا سامنا کرنے پر مجبور رہے۔