ایس ایم کرشنا بی جے پی میں تنہا، حامی کانگریس میں واپس

اسٹیج پر وزیر اعظم کے ساتھ لیکن آبائی مقام پر کوئی شناخت نہیں
حیدرآباد۔/5 مئی، ( سیاست نیوز) سابق چیف منسٹر و سابق مرکزی وزیر ایس ایم کرشنا اگرچہ وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ اسٹیج پر دکھائی دیئے لیکن اپنے آبائی مقام پر وہ خود بی جے پی میں تنہا ہوچکے ہیں۔ بی جے میں شمولیت کے بعد پہلی مرتبہ ایس ایم کرشنا کسی اسٹیج پر دکھائی دیئے۔ جنوبی کرناٹک میں موجود طاقتور وکالیگا کمیونٹی کو بی جے پی کے قریب لانے کیلئے ایس ایم کرشنا نے مساعی کی اور اسی مقصد سے انہیں بی جے پی میں شامل کیا گیا۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی کل ہوئی انتخابی ریالی میں ایس ایم کرشنا دکھائی دیئے جو کہ انتخابی ریالیوں میں ان کی اولین شرکت ہے۔ انہوں نے گزشتہ سال مارچ میں کانگریس سے استعفی دے کر بی جے پی میں شمولیت اختیار کی تھی۔ اب جبکہ اسمبلی انتخابات کو ایک ہفتہ باقی ہے ایس ایم کرشنا کو وزیراعظم نے اپنے ساتھ اسٹیج پر جگہ دی لیکن اپنے آبائی مقام پر ایس ایم کرشنا کی کوئی شناخت نہیں ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ایس ایم کرشنا کے آبائی مقام مدور میں ایس ایم کرشنا کے ساتھ کانگریس سے استعفی دے کر بی جے پی میں شمولیت اختیار کرنے والے کئی قائدین اور حامی دوبارہ کانگریس میں واپس ہوگئے اور انہوں نے بی جے پی پر نظر انداز کرنے کا الزام عائد کیا۔ دو ہفتے قبل ایس ایم کرشنا کے کئی حامیوں نے بی جے پی سے ناراض ہوکر کانگریس میں واپسی کرلی۔ پارٹی کے رویہ سے ناراض اور ٹکٹ سے محروم بی جے پی قائد لکشمن کمار نے گزشتہ ماہ بی جے پی سے استعفی دے کر پارٹی امیدوار ستیش کیلئے مشکلات میں اضافہ کردیا۔ لکشمن کمار کے آفس پر موجود بی جے پی کے پرچم اور بیانرس اُتار دیئے گئے ہیں ان کی جگہ کانگریس کے پرچم لگادیئے گئے۔ بی جے پی کے چیف منسٹر عہدہ کے امیدوار یدیورپا کی تصویر کو بھی ہٹادیا گیا عمارت پر اب صرف کانگریس کے پرچم دکھائی دے رہے ہیں۔ پارٹی ورکرس کا کہنا ہے کہ استعفی کے بعد کچھ دن تک انہوں نے انتظار کیا لیکن بی جے پی کی کسی قائد نے ربط قائم نہیں کیا جس کے نتیجہ میں انہیں کانگریس کی مہم میں مصروف ہوجانا پڑا۔ چیف منسٹر سدارامیا نے کئی قائدین سے شخصی طور پر کانگریس میں شمولیت کی اپیل کی۔ ان حالات میں سابق مرکزی وزیر ایس ایم کرشنا کی مشکلات میں اضافہ ہوچکا ہے۔ اگر وہ 12 مئی کے انتخابات میں پارٹی کے حق میں ووٹ متحد کرنے میں ناکام ہوتے ہیں تو کرناٹک میں ان کے سیاسی مستقبل کو گہن لگ سکتا ہے۔