پولیس تحقیقات میںشواہد کی عدم دستیابی کا واضح ثبوت، تحقیقاتی ایجنسی کا متضاد موقف
حیدرآباد ۔ /27 جولائی (سیاست نیوز) اسپیشل انوسٹی گیشن ٹیم ( ایس آئی ٹی ) کی من مانی اور مخصوص طور پر کسی کو نشانہ بنانے کی پالیسی آج پوری طرح بے نقاب ہوگئی۔ سابق کارپوریٹر محمد غوث کو ایس آئی ٹی نے ایک ایسے مقدمہ میں گرفتار کرکے جیل بھیج دیا جو مقدمہ چار ماہ قبل ہی بند ہوچکا تھا۔ ایس آئی ٹی عہدیداروں نے آج 14 ویں ایڈیشنل میٹروپولیٹین مجسٹریٹ کے اجلاس پر محمد غوث کوحسینی علم پولیس اسٹیشن میں درج کئے گئے مقدمے 289/2012 سیکشن 143, 147, 188, 333, 353, 153 (A) r/w. 149 IPC, Sec. 7 کریمنل امینڈمینڈ ایکٹ میں پیش کیا ۔تحقیقاتی ایجنسی نے عدالت میں تحقیقاتی رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا کہ /16 نومبر سال 2012 ء کو محمد غوث نے مبینہ طور پر بعد نماز جمعہ کئی مسلم نوجوانوں کو اکسایا اور بعد ازاںچارمینار بھاگیہ لکشمی مندر کی سمت اشتعال انگیز نعرے بازی کرتے ہوئے ہجوم کی شکل میں آگے بڑھنے کی کوشش کررہے تھے کہ پولیس نے ان پر آنسو گیس شیل برسائے ۔ اسی دوران ہجوم نے پولیس پر سنگباری کی جس کے نتیجہ جوائنٹ کمشنر آف پولیس کوآرڈینیشن مسٹر سنجے کمار جین کے پرسنل سکیورٹی آفیسر جی گنگا ریڈی زخمی ہوگئے تھے اور ان کا ایک دانت ٹوٹ گیا تھا ۔ حسینی علم پولیس نے اس کیس کو از خود کارروائی کے طور پر محمد غوث سابق کارپوریٹر ، محمد مکرم علی سابق کارپوریٹر اور مظفر کے خلاف مقدمہ درج کرتے ہوئے اس کیس کو سنٹرل کرائم اسٹیشن کی اسپیشل انوسٹی گیشن ٹیم کے حوالے کردیا ۔ اس مقدمہ میں 12 پولیس عہدیدار گواہ اور تحقیقاتی عہدیدار ہیں ۔ ایس آئی ٹی نے تحقیقاتی رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ تحقیقات کے دوران اہم شواہد کو اکٹھا کیا گیا ہے جس میں جوائنٹ کمشنر کے پرسنل سکیورٹی آفیسر کے ٹوٹے ہوئے دانت کو بھی ایف ایم ایس ڈنٹل ہاسپٹل دلسکھ نگر سے بطور ثبوت برآمد کیا گیا ۔ واضح رہے کہ ساؤتھ زون پولیس نے محمد غوث کارپوریٹر کے خلاف فرقہ وارانہ نوعیت کے 6 مقدمات جن کا کرائم نمبر 308, 309, 310, 311, 312/2012 اور مغلپورہ پولیس اسٹیشن کے ایک اور مقدمہ 170/2013 درج کیا تھا ۔ بتایا جاتا ہے کہ محمد غوث نے ان مقدمات میں پہلے ہی ضمانت حاصل کرلی ۔ آج سابق کارپوریٹر محمد غوث کو 14 دن کیلئے عدالتی تحویل میں دیئے جانے کے بعد انہیں چنچل گوڑہ جیل منتقل کردیا گیا ۔ ایس آئی ٹی کا یہ موقف کیا کسی سیاسی دباؤ کا نتیجہ ہے کیونکہ جس کیس کو پولیس نے ختم کردیا اسی کیس میں پھر کارروائی کی گئی ہے۔
ll کیس کے ملزم نمبر 2 محمد مکرم علی نے نامپلی کریمنل کورٹ کے تیسرے ایڈیشنل میٹروپولیٹین سیشن جج کے اجلاس پر ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست داخل کی تھی جس پر جج مسٹر کے راج کمار نے /28 مارچ کو درخواست ضمانت خارج کرتے ہوئے اپنے احکام میں یہ بتایا کہ کرائم نمبر 289/2012 مقدمہ میں ایڈیشنل پبلک پراسیکیوٹر نے عدالت کو یہ واقف کروایا کہ پولیس نے اس کیس کو عدم شواہد کی دستیابی کی بنیاد پر بند (فائنل رپورٹ داخل کردی) کردیا ہے اور ضمانت قبل از گرفتاری منظور کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوگا ۔ اس درخواست کو خارج کردیا گیا تھا ۔