ایران میں مظاہرے اور ٹرمپ کے ٹوئٹ۔ شکیل شمسی

پچھلے چار دن سے ایران کے کچھ شہروں میں گرانی اور بے روزگاری کے خلاف مظاہرے ہورہے ہیں ویسے تو کسی ملک میں مہنگائی یا نے روز گاری کے خلاف مظاہرے ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے ‘ ہمارے ملک میں تو شائد ہی کوئی دن جاتا ہوں جس دن کسی شہر میں کوئی مظاہرہ نہ ہوتا‘ کتنی ہی باراحتجاج کرنے والوں پر لاٹھی چار بھی ہوتا ہے فائرنگ بھی ہوتی ہے مگر دنیا کے کسی ملک کی جانب سے کوئی بیان جاری نہیں ہوتا‘ کیونکہ اقوام عالم میں یہ بات سفارتی آداب کے خلاف سمجھی جاتی ہے کہ کوئی سربراہ مملکت کسی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرے ‘ مگر چونکہ امریکہ کے سیاست داں خود کو تام عالمی قوانین سے اوپر سمجھتے ہیں اسلئے وہ مسلم ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے کو اپنا پیدائشی حق سمجھتح ہیں ۔

امریکہ کے غروروتکبر کا عالم یہ ہوگیا ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں دوتہائی کی تعداد سے پاس ہونے والی قرارداد کو قبول کرنے کے بجائے وہ عالمی برداری کو دیکھ لینے کی دھمکی دیتا ہے ۔

اپنی اسی اجارہ داری‘ مطلق العنانی اور جارحانہ رو ش کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان دنوں امریکی صدر ایران میں ہونے والے مظاہروں پر ٹوئٹ کرکے برابر کہہ رہے ہیں کہ ان کی نگاہیں ایران پر ٹلی ہیں اور وہاں کی حکومت ذراسی بھی سختی مظاہرین کے ساتھ اختیار نہ کرے۔

اصل میں امریکہ کو یہ لگ رہا ہے کہ ایران میں گنتی کے چند لوگ جو مظاہرے کررہے ہیں وہ ایران ک حکومت کو یا وہاں کے رہبر انقلاب اسلامی سید علی خامنہ ائی کے لئے کسی قسم کا چیلنج پیدا کرسکتے ہیں ‘ حالانکہ امریکہ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ کسی بھی شہر میں مظاہرین کی تعداد ہزار دو ہزار تک بھی نہیں پہنچی ‘ اس کے برعکس حکومت کی حمایت میں نکلنے والے عوام کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی۔

آپ کو یاد ہوگا کہ ایران میں2009میں بھی کئی شہروں میں مظاہرے ہوئے تھے اور اس وقت بھی امریکہ اور اس کے حلیفوں نے ایسا ہی تاثر دینے کی کوشش کی تھی کہ جیسے ایرانی عوام اسلامی انقلاب سے متنفر ہوگئے ہیں اور ایک بار پھر امریکہ اور اس کے احباب دنیا کو یہی بتانے کی کوشش کررہے ہیں کہ جیسے ایران میں انقلاب اسلامی کے دن پورے ہوگئے اور اب عوام کا دل اسلامی نظام سے بھر گیا ہے جبکہ 2009میں بھی ان مظاہروں کو حکومت نے نہیں ایرین کے عوام نے ناکام کیاتھا اور اس بات بھی یہ کام وہاں کی عوام ہی کرنے کو نکلی ہے۔

ہمارے خیال میں کسی ملک میں مظاہرے ہونے میں کوئی خرابی نہیں ‘ بلکہ مظاہرے ایک مضبوط جمہوری نظام کا حصہ ہیں‘ اسی لئے ایران کے صدر حسن روحانی نے ایک قومی نشریہ میں واضح الفاظ میں کہاکہ مظاہرے کرنا عوام کا حق ہے ‘ لیکشن کسی کو تشدد اختیار کرنے کا کوئی حق نہیں ہے مگر وہی امریکی صدر جن کے انتخاب کے بعد پورے امریکہ میں مظاہرے ہوئے تھے وہ بڑی بے شرمی کے ساتھ ایران میں ہونے والے مظاہرے اور تشدداختیار کرنے والے مظاہرین کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کررہے ہیں۔ اصل میں امریکہ چاہتا ہے کہ دنیا کو بتائے کہ اسلامی انقلاب اپنی مقبولیت کھوچکا ہے ۔

درحقیقت امریکہ کی یہ دلی خواہش ہے کہ ایران سے اسلامی حکومت چلی جائے۔ سنہ 1979سے ابھی تک امریکہ اسی انتظار میں ہے کہ جس دن ایران کے اندرونی حالات خراب ہوں اور وہ وہاں اپنے جنگجوؤں کو بھیجے۔واضح ہوکہ شام میں امریکہ اور اسرائیل نے یہی طریقہ اختیار کیاتھا۔

وہاں حکومت کے خلاف جیسے ہی مظاہرے شروع ہوئے ‘ امریکہ اور اس کے تمام حلیفوں نے مسلح جنگجوؤں کے جتھے کے جتھے شام کی سرحدوں کے اندر اتارنا شروع کردئے وار عوامی احتجاج کو خانہ جنگی میں تبدیل کردیا۔

جب اس سے بھی کام نہیں بنا تو داعش او رالنصرہ جیسی تنظیموں کو میدان میں اتارکر شام کو مسلکی جنگ کی آگ میں جھونکنے کی کوشش کی مگر امریکہ کے خوابوں کے محل کو چکنا چور ہونے میں ذرا دیر نہیں لگی کیونکہ جن بھیڑیوں کو اس نے مسلمانوں کے بھیس میں وہاں بھیجا تھا وہ شیعہ کے ساتھ ساتھ ایزدیوں‘ کردووں‘ شافعی‘ حنفی ‘ وصوفی سنیوں اور عیسائیوں کو قتل کرنے لگے۔ اب امریکہ اس میں ہے کہایران میں براہ راست مداخلت کرنے کا کوئی بہانہ ملے اور وہ وہاں ان دہشت گردوں کو اتارسکے جن کو شام اورعراق سے بچا کر اس نے اپنے فوجی اڈوں پر پناہ دے رکھی ہے