اگرہ۔ یہ بات اس وقت خوشگوار ہوجاتی ہے جب ایک اسلامی مدرسہ میں دوسرے عقیدے کے طلبہ کو ان کی مرضی کے مطابق مضامین کے متعلق تعلیم دی جاتی ہے۔تمام روایتوں کو بلائے طاق رکھ کر معین السلام مدرسہ داراوۃمیں ہندو اسٹوڈنٹ کو ریاضی اور انگلش جیسے مضامین پچھلے دس سالوں سے پڑھائے جارہے ہیں۔
انڈیا ٹوڈے کی خبر کے مطابق اُردوعربی اور فارسی کے علاوہ انگریزی ‘ ہندی ‘ ریاضی ‘ سائنس اور کمپویٹر سائنس کے مضامین بھی اسلامک ادارے میں پڑھائے جاتے ہیں۔مدرسے کاقیام 1958میں عمل میںآیا اور دس سال قبل تک بھی اس میں ہندواسٹوڈنٹ نہیں تھے۔ تاہم 450میں سے اب 202ہندو اسٹوڈنٹس ہیں۔
مولاناؤں کے مطابق بناء کسی دباؤ کے غیر مسلم طلبہ بھی اُردواور عربی پر عبور حاصل کررہے ہیں اور انہیں اپنی مرضی کے مضامین منتخب کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ یہا ں پر 14مولانا اور 4ٹیچر ہیں جو اول تا دہم جماعت کے طلبہ کو تعلیم دیتے ہیں۔
درجہ چہارم کی ایک طالب علم دپتی نے کہاکہ مدرسہ اس کے گھر کے قریب میں واقع ہے جس میں اس کے بہت سارے دوست زیرتعلیم ہیں۔
دپتی کے والد مہیندر سنگھ نے کہاکہ ’’ دپتی کی مرضی سے میں نے اس کو مدرسہ میں داخلہ دلایا اور وہاں پر اب تعلیم سے لطف اندوز ہورہی ہے۔پچھلے چار سالوں سے وہ دیگر مضامین کے علاوہ اردوو اور عربی کی تعلیم بھی حاصل کررہی ہے‘‘۔
پرنسپل مولانا اوجیر عالم نے کہاکہ ’’ کسی بھی مذہب میں ذات اور نسل کی بنیاد ر امتیازی سلوک کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور آپسی اتحاد کی یہ ایک مثال ہے جہاں پر مختلف عقائد اور مذاہب کے بچے ایک چھت کے نیچے بیٹھ کر تعلیم حاصل کررہے ہیں۔
بالراست یہ ایک چھوٹی پہل ہے جس کے ذریعہ ہم ملک کے تمام تعلیمی اداروں کو ایک پیغام ارسال کررہے ہیں‘‘