مجوزہ 2019کے لوک سبھا الیکشن میںیہ دعوی نہیں کیاجاسکتا کہ کونسی پارٹی اقتدار میں ائے گی۔مودی حکومت جس نے ہندوستان کی بڑی ریاستوں میں اقتدار حاصل کیا ہے او رمذکورہ بھگوا پارٹی کے وعدہ اور نعرے جیسے اچھے دن ‘کالا دھن‘ فلاحی اسکیم‘ بے روزگاری کاخاتمہ او ربہت ساروں کے ساتھ چل کر وزیراعظم کی تشکیل کی راہ آسان نہیں دیکھائی دے رہی ہے۔
مگر نوٹ بندی اور جے ایس ٹی نا فذ کرنے کے بعد ہندوستان کی معیشت پر بڑا کارضرب لگا ہے۔ جہاں ملک نوٹ بندی کی مار سے باہر نکلنے کی کوشش کررہا تھا ‘ اسی دوران ہزار وں کروڑ کے اسکام عوام کے سامنے ہے اور پھر جی ایس ٹی نافذ کردیاگیا۔
اسکام کرنے والوں نے شہریوں کی سخت محنت کی کمائی سے ادا کئے گئے ٹیکس کے پیسے لے کر ملک سے فرار ہوگئے ‘ اورحکومت بڑی کامیابی کے ساتھ بنیادی چیزوں پر قیمتوں میں اضافہ کرتے ہوئے عام شہری پربوجھ عائد کردیاجس کے نتیجے میں معیشت او ربھی کمزو رہوگئی۔بھگواپارٹی کی نگرانی میں انجام دئے گئے یہ تمام کاموں کے بعد مذکورہ پارٹی کا دوبارہ منتخب ہوناتقریباناممکن دیکھائی دے رہا ہے۔
اگرچہ کہ بی جے پی ذاتی طو رپر اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہے ‘ اپوزیشن پارٹیوں نے بھی اتحاد کی تشکیل کی ہے کامیاب ہوسکتے ہیں۔ممکن ہے کہ کرناٹک کے الیکشن کی صورتحال دوبارہ پیش ائے‘ اگر ایسا نہیں ہوا تھا ہوسکتا ہے بی جے پی کی جیت سے کئی سیاسی مستقبل ختم ہوجائیں گے۔
مگر ممکن ہے بی جے پی کو موقع ہے کیونکہ اچھا مانسون اور زیادہ تر معاشی اشارہ صحیح سمت جارہے ہیں۔سابق کی مہم کی طرح جیسے فلاحی اسکیم او رروزگار کے تحت جس پر بھگوا پارٹی اب بھی سوالات کے گھیرے میں ہے تو اگلا الیکشن جیتنے کے لئے ان کے پاس کیاحکمت عملی ہوگی۔
مگر مودی حکومت کے پانچ سالہ معیاد کاجائزہ میں لوگوں کو بڑے توقعاتی تبدیلیوں کو پانچ سال کے قلیل وقت میں نہیں کرنی چاہئے۔ مگر یہ حکمت عملی بی جے پی کے ساتھ بہتر انداز میں کام نہیں کریگی جس سے رائے دہندوں کوجذباتی کیاجاسکے۔
ہندوستانی کی معیشت اس قدر تباہی کے دہانے پر نہیں پہنچتی اگر صرف جے ایس ٹی نافذ کردیا جاتا او ر کبھی بھی نوٹ بندی نہیں ہوتی۔
قابل غور بات یہ ہے کہ رائے دہندے مودی کو نوٹ بندی یا جی ایس ٹی کے لئے سزا نہیں دیں گے‘ مگر اس مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ وہ انہیں2019کے الیکشن کے لئے اعزاز سے بھی نوازیں گے۔
ان تمام باتوں کو بغور جائز ہ لینے کے بعد‘ یقینی طور پر مودی کو اگلا الیکشن جیتنے کے لئے کوئی بڑی کہانی یا ائیڈیا کی ضرورت پڑے گی۔
مگر مسئلہ یہ ہے کہ ان کے پاس اب تک کوئی ایسی بڑی کہانی موجود نہیں ہے۔
اب نیا انتخابی نعرہ بی جے پی کے لئے ’ صاف نیت ‘ صحیح وکاس‘ ہے جو یقینی طور پر رائے دہندوں کودوبارہ جذباتی نہیں کرسکتا ہے ‘ جب کے مقابلے میں ملک پرطویل وقت تک اقتدار میں رہنے کا ایک واضح ریکارڈ رکھنے والی پارٹی ہے